1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

حوثی باغیوں کا بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملہ

4 دسمبر 2023

امریکی افواج کا کہنا ہے کہ گھنٹوں جاری رہنے والے حملے کے دوران دفاعی کارروائی میں تین ڈرونز کو مار گرایا گیا۔

https://p.dw.com/p/4ZkVq
اس تصویر مین یو ایس ایس جارنی نامی جہاز کو دیکھا جا سکتا ہے
تین دسمبر کو یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں تین تجارتی بحری جہازوں کو بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایاتصویر: U.S. Navy via AP/picture alliance

امریکی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتوار تین دسمبر کو یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں تین تجارتی بحری جہازوں کو بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دوران دفاعی کارروائی میں ایک امریکی جنگی جہاز کے ذریعے تین ڈرونز کو بھی مار گرایا۔

دوسری جانب حوثی باغیوں نے ان تین میں سے دو بحری جہازوں ہر حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

امریکی فوج کے کمانڈ سینٹر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حملے کا آغاز یمن کے دارالحکومت صنعا کے مقامی وقت کے مطابق اتوار صبح 9 بج کر 15 منٹ پر ہوا اور اب جوابی کارروائی پر غور کیا جائے گا۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے بعد سے مشرق وسطی کے سمندروں میں اس تنازعے سے منسلک حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اتوار کو ہونے والا حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

امریکی افواج نے ان حملوں سے متعلق اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی تجارت اور بحری سکیورٹی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ان حملوں نے متعدد ممالک کی نمائندگی کرنے والے بین الاقوامی عملے کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

اس تصویر مین یو ایس ایس جارنی نامی جہاز کو دیکھا جا سکتا ہے
تین دسمبر کو یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں تین تجارتی بحری جہازوں کو بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایاتصویر: .S. Navy photo/abaca/picture alliance

امریکی افواج کا یہ بھی ماننا ہے کہ اتوار کے حملے میں حوثی باغیوں کو ان کے حامی ایران کی طرف سے بھی مدد فراہم کی گئی۔

حوثی باغیوں نے اتوار ہونے والے تین حملوں میں سے دو کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بحری جہاز کو میزائل جبکہ دوسرے کو ایک ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔

تاہم حوثی ملیشیا کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ ساری نے اپنے بیان میں ان حملوں کے دوران کسی امریکی جنگی جہاز کی جانب سے جوابی کارروائی کا ذکر نہیں کیا ہے۔

یحییٰ ساری نے اپنے بیان میں کہا، ''یمن کی مسلح افواج اسرائیلی جہازوں کو اس وقت تک بحیرہ احمر میں جانے سے روکتی رہیں گی جب تک غزہ میں ہمارے ثابت قدم بھائیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت ختم نہیں کر دی جاتی۔‘‘

اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل اتنا مشکل کیوں؟

انہوں نے تمام اسرائیلی اور اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کے مالکان کو تنبیہ کی ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں "یمنی مسلح افواج" کا ان جہازوں کو نشانہ بنانا ایک جائز عمل بن جائے گا۔

اس دوران ایران کی جانب سے ان حملوں سے متعلق اب تک کوئی براہ راست بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ اگر غزہ میں موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے حوالے سے خطے میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوگا۔

امیرعبداللہیان نے کہا، ''وہ تمام فریق جو مزید جنگ چاہتے ہیں، ان کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ خواتین اور بچوں کا قتل، جس کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، روک دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ بیان انہوں نے "مزاحمتی طاقتوں" سے بات کرنے کہ بعد دیا۔ ایران مزاحمتی طاقتوں کی اصطلاح کا استعمال حوثیوں اور حزب اللہ جیسے گروپوں کے لیے کرتا ہے۔

 

م ا/ر ب (اے پی)