حکومتی مدد سے بھارت میں گرین اور سستی کاریں
1 فروری 2016بھارتی حکومت کے اس فیصلے کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش ہے۔ فضائی آلودگی کے حوالے سے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ بدھ تین فروری سے یہاں بھارت کے سب سے بڑے کار شو کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس موقع پر ٹویوٹا موٹر جیسے غیر ملکی ادارے بھارت کے ٹاٹا موٹرز اور مہیندرا اینڈ مہیندرا جیسے مقامی کارساز اداروں کے ساتھ مل کر ایسی ماحول دوست کاریں نمائنش کے لیے پیش کریں گے، جو قیمت کے حوالے سے بھی عام بھارتیوں کی دسترس میں ہوں۔
بھارت میں اس وقت ہائبرڈ یا الیکٹرک کاروں کی فروخت کی شرح انتہائی کم ہے۔ بھارتی حکومت کے مطابق اب ایسی ہر کار کی فروخت پر کار ساز اداروں کو 2000 ڈالرز کے مساوی مدد فراہم کی جائے گی۔ موٹر گاڑیوں کی صنعت پر نظر رکھنے والے بھارتی ادارے IHS آٹو موٹیو کے مطابق امید کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے کے باعث 2020ء میں بھارت میں متوقع طور پر فروخت ہونے والی 50 لاکھ گاڑیوں کا ایک تہائی ماحول دوست کاروں پر مبنی ہو گا۔
ماروتی سوزوکی انڈیا لمیٹڈ کے سربراہ سی وی رامن کے مطابق، ’’صرف یہی کافی نہیں ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کو بھارت میں متعارف کرا دیا جائے، آپ کو اس ٹیکنالوجی کو مارکیٹ اور خریداروں کے حسب حال بنانا ہو گا۔‘‘ ماروتی سوزوکی بھارت میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کار ہے۔
غیر ملکی پُرزوں پر انحصار کے باعث ابھی تک بھارت میں ہائبرڈ کاروں کی تیاری کافی مہنگی ہے تاہم حکومت کی طرف سے ایسی گاڑیوں کی فروخت پر دی جانے والی معاشی ترغیب کے باعث ’سیمی ہائبرڈ‘ کاروں کو بھارتی مارکیٹ کے لیے ایک طویل المدتی حل تصور کیا جا رہا ہے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس متعارف کرائی گئی اسکیم کو FAME کا نام دیا گیا ہے یعنی ’فاسٹر اڈاپشن اینڈ مینوفیکچرنگ آف ہائبرڈ اینڈ الیکٹرک کارز‘۔ اس اسکیم کے تحت ایسی کسی کار کی فروخت کے تحت 138,000 بھارتی روپوں تک رعایت دی جائے گی۔ یہ رقم 2,032 امریکی ڈالرز کے برابر بنتی ہے۔
جاپان کی ٹویوٹا کمپنی نہ صرف ہائبرڈ کاروں کے نئے ماڈلز لانے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ اس وقت بھارت میں فروخت کی جانے والی کاروں میں بھی کاربن کے اخراج کی مقدار کو کم سے کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ دوسری طرف ماروتی موٹرز پہلے ہی سے کم لاگت والی ہائبرڈ ٹیکنالوجی کی تیاری کے لیے سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ماروتی کے مطابق یہ ٹیکنالوجی ایندھن کے کم سے کم استعمال کے علاوہ کاربن کا اخراج بھی کم سے کم کرے گی مگر اس کے باوجود یہ موجودہ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کہیں سستی ہو گی۔