خاشقجی قتل کی ریکارڈنگز سعودی عرب کے لیے بھی دھچکا، ایردوآن
13 نومبر 2018استنبول سے منگل تیرہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ترک میڈیا نے بتایا کہ صدر ایردوآن کے بقول انقرہ حکومت نے جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل سے متعلق جو ریکارڈنگز ترکی کے اتحادی چند مغربی ممالک کو فراہم کی ہیں، وہ قابل نفرت، انتہائی حد تک بیزار کن اور تکلیف میں مبتلا کر دینے والی ہیں۔
خاشقجی کو، جو ایک سعودی شہری، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ناقد تھے، اکتوبر کے مہینے کے اوائل میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اس قتل کے بارے میں دستیاب شواہد کی روشنی میں ترک صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی حکومت کی طرف سے ’اعلیٰ ترین سطح‘ پر دیا گیا تھا۔
اس بارے میں سعودی حکام نے پہلے تو چند ہفتوں تک یہی موقف اختیار کیے رکھا تھا کہ خاشقجی اچانک لاپتہ ہو گئے تھے لیکلن جب ترک حکام نے سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے یہ دعویٰ کر دیا کہ خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے تو گئے تھے لیکن باہر نکلے ہی نہیں تھے، تو سعودی حکام نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ اس صحافی کو قونصل خانے ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اسی قتل کے بارے میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بعد ازاں یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ خاشقجی کا قتل ایک ’بہت بڑی اور بھیانک غلطی‘ تھا، جو چند سعودی اہلکاروں کے مجرمانہ اقدامات کا نتیجہ تھا اور جس میں سعودی حکومت یا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا قطعاﹰ کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
ریاض حکومت کے اس موقف کے برعکس ترک صدر ایردوآن نے ویک اینڈ پر کیے گئے اپنے فرانس کے ایک دورے سے وطن واپسی پر پیر کی شام صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے امریکی، فرانسیسی اور جرمن رہنماؤں کے ساتھ پیرس میں ایک عشائیے کے دوران جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں بھی بات چیت کی تھی۔
صدر ایردوآن نے کہا، ’’(جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق) یہ ریکارڈنگز اتنی بیزار کن اور تکلیف میں مبتلا کر دینے والی ہیں کہ جب سعودی انٹیلیجنس کے ایک افسر نے انہیں سنا، تو وہ بھی شدید دھچکے کا شکار ہو گیا اور اس نے کہا، جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے، اس نے ہیروئن کا نشہ کیا ہو گا۔ ایسا صرف ہیروئن کا نشہ کرنے والا کوئی شخص ہی کر سکتا ہے۔‘‘
رجب طیب ایردوآن نے مزید کہا، ’’جو کوئی بھی ہم سے یہ ریکارڈنگز حاصل کرنا چاہتا تھا، ہم نے یہ اسے سنائی ہیں۔ ترک انٹیلیجنس کے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ جس جس نے بھی ہم سے درخواست کی، ہم نے یہ ریکارڈنگز سب کو سنائیں۔ سعودی، امریکی، فرانسیسی، جرمن، برطانوی اور کینیڈین حکام کو بھی۔‘‘
جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں ترک صدر نے ایک بار پھر کہا کہ اس قتل کا حکم سعودی عرب کے شاہ سلمان کی طرف سے آ ہی نہیں سکتا تھا، جن کا خود ایردوآن ’لامحدود احترام‘ کرتے ہیں۔ ’’لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس قتل کا حکم اعلیٰ ترین سعودی حکام کی طرف سے دیا گیا تھا۔‘‘
صدر ایردوآن نے مزید کہا، ’’سعودی ولی عہد کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں گے اور جو کچھ بھی ضروری ہوا، وہ کریں گے۔ ہم (ترکی) ابھی تک بڑے صبر سے (اس وضاحت کا) انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
م م / ع ب / روئٹرز