1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خاموش انتظامیہ اور ڈوبتا بلوچستان‘

30 جولائی 2022

بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ درجنوں ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد بے گھر اور مویشی سیلاب برد ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر احتجاج کے بعد آج ملکی وزیر اعظم نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4EuK5
Afghanistan Wasser in Belutschistan | Überschwemmung
تصویر: DW/S. Khan

بلوچستان میں شروع ہونے والی حالیہ مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں حکام کے مطابق اب تک تقریباﹰ 120 ہلاکتیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کے خدشات ہیں کہ ہلاکتوں کی اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بارشوں کے بعد بنیادی ڈھانچہ اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گئے ہیں جبکہ امدادی کارروائیاں محدود ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیزعقیلی کے مطابق صوبے میں بارشوں گزشتہ 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور اب بھی ہائی الرٹ جاری ہے۔ عوام کو گھروں میں رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ 

وزیراعظم کئی روز بعد آج بلوچستان پہنچ گئے

بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والے شدید جانی و مالی نقصان کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو متاثرہ علاقوں کا دورہ گزشتہ ہفتے کرنا تھا تاہم موسم کی خرابی کے سبب ان کا یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا تھا۔ وہ آج ایک روزہ دورے پر بلوچستان پہنچ گئے ہیں۔

ان شدید بارشوں کے باعث کئی رابطہ سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ بارشوں کے بعد آنے والے متعدد سیلابی ریلوں کے باعث کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ بھی بہہ گئی اور مسافر کئی دنوں تک بے یار و مدد گار سڑکوں پر پھنسے رہے۔ وڈھ، بیلہ، اوتھل اور وندر کے علاقوں میں شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ ٹاورز بہہ جانے سے مواصلاتی نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر دوبارہ بارش سے بھی مسافروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ یہ شاہراہ اتوار تک ہیوی ٹریفک کے لیے بند رہے گی۔ چھوٹی گاڑیوں کے لیے کچا راستہ کھول دیا گیا ہے۔

Pakistan Überschwemmung in der Provinz Balochistan
ان شدید بارشوں کے باعث کئی رابطہ سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ بارشوں کے بعد آنے والے متعدد سیلابی ریلوں کے باعث کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ بھی بہہ گئی اور مسافر کئی دنوں تک بے یار و مدد گار سڑکوں پر پھنسے رہے۔تصویر: ISPR/Xinhua/IMAGO

یاد رہے کہ آر سی ڈی شاہراہ بلوچستان کی سب سے طویل سڑک ہے، جو نہ صرف پورے بلوچستان کے اضلاح کو ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے بلکہ بلوچستان کو پاکستان کے دوسرے صوبوں سے بھی ملاتی ہے۔ اس کی بندش کے سبب صوبے کو پہنچنے والی ضروری اشیاء کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی حالیہ بارشوں کے بعد کئی علاقے ایسے ہیں، جہاں سیلاب کے بعد اب تک عوام تک امداد نہیں پہنچ سکی ہے۔

دالبندین میں سیلاب، پاک ایران ریلوے سروس معطل

سیلاب کے باعث پاک ایران ریلوے سروس معطل ہو گئی ہے۔ دالبندین کے قریب سیلابی ریلے ریلوے ٹریک کو بہا لے گئے۔ ریلوے حکام کے مطابق احمد وال، دالبندین اور مچھ میں مختلف مقامات پر ٹریک کو نقصان پہنچا ہے۔ دو مال بردار ٹرینوں کو دالبندین اور ایک کو مچ اسٹیشن پر روک لیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ٹریک کی بحالی میں کئی دن لگ سکتے ہیں جبکہ سیلابی ریلے رکنے کے بعد ہی ریلوے ٹریک کی مرمت ممکن ہو سکے گی۔ دالبندین ان کئی علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں اب تک امدادی کارروائیاں نا ہونے کے برابر ہیں۔

صوبائی مشیر داخلہ ضیا لانگو نے متاثرین کے لیے امداد کا اعلان کیا اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ صوبائی حکومت ہر طرح کی آفت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پرونشل ڈی‍‍زاسٹر مینجمنٹ (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے مزید بارشوں کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ ادارے کے حکام کی جانب سے اس بات کا بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں امدادی کارروائیاں جا ری ہیں لیکن مسلسل بارشوں کی وجہ سے ریسکیو آپریشن بھی تعطل کا شکار ہے۔

صوبے میں بدترین صورتحال کے باعث مسافر بسیں بیچ راستوں میں پھنسی ہیں جبکہ مال بردار گاڑیاں بھی راستے کھلنے کی منتظر ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق پیٹرولیم مصنوعا ت، ادویات اورکھانے پینے کی اشیاء کی قلت پیدا ہونے لگی ہے۔  شدید بارشوں کے بعد ہونے والی سیلابی صورتحال پر 27 اور 28 جولائی کو ٹویٹر پر ''خاموش انتظامیہ اور ڈوبتا بلوچستان‘‘ سمیت دیگر ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرتے رہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں متاثریں انتظامیہ سی مدد کی اپیلیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ 30 برسوں کے مقابلے میں 500 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں۔