1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاندانی منصوبہ بندی صرف عورت کی ذمہ داری کیوں؟

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
30 نومبر 2024

پاکستانی معاشرے میں ایک عام رجحان یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی بات صرف عورتوں تک محدود رکھی جاتی ہے، جبکہ مرد کو اس میں شمولیت کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ کیا خاندانی منصوبہ بندی صرف عورت کی ہی ذمہ داری ہے؟

https://p.dw.com/p/4nYss
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

یہ اسلام آباد کے ایک سرکاری ہسپتال کی چلڈرن وارڈ تھا، جہاں کونے میں ایک نازک سی لڑکی اپنے کمزور سے بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی۔ اس کی عمر تقریباً انیس یا بیس سال ہو گی۔ مجھے لگا کہ اسے مدد کی ضرورت ہے۔ اس سوچ کے تحت میں اس کے قریب گئی اور اس سے نرم لہجے میں پوچھا کہ کیا اسے کوئی مدد چاہیے؟ اس نے انکار کیا تو پھر میں نے اس سے یہ جاننا چاہا کہ کیا یہ اس کا پہلا بچہ ہے؟ اس نے خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا: نہیں، پانچواں۔ میری حیرت کے لیے یہ جواب کافی تھا، لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ مزید پوچھتی، اس کی ساس نے فخریہ لہجے میں بتایا کہ ''پہلے چار بیٹیاں ہیں، اور اب بیٹا ہوا ہے۔‘‘

پاکستان، جہاں 24 کروڑ کی آبادی میں یومیہ تقریباً 15 ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں، وہاں ان بچوں کی پیدائش کے حالات اور ماں کی صحت کا خیال رکھنا معاشرتی یا حکومتی ترجیح نہیں ہے۔ مگر ہر نئے بچے کی پیدائش عورت کے لیے ایک نیا امتحان اور جسمانی قربانی ہوتی ہے۔ دوسری طرف، اکثر اس عورت سے صدیوں سے غیر انسانی رویہ اپنایا جا تا ہے یعنی تمام تر کام اور قربانیوں کے جواب میں اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے: ''آخر تم کرتی ہی کیا ہو؟‘‘

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر خاندانی منصوبہ بندی کے مختلف منصوبے شروع کیے گئے۔ تاہم، یہ تمام کوششیں عورت تک محدود رہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ خواتین تک رسائی حاصل کریں اور انہیں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے سکھائیں۔ مگر مردوں کی شمولیت نہ ہونے کے برابر رہی۔

مانع حمل کے لیے جو طریقے دستیاب ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا بوجھ خواتین کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، جس میں مختلف ہارمونل دوائیں، سرجیکل طریقے، یا اندرونی جسمانی آلات شامل ہیں۔ یہ سب عورت کے جسم پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس کی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ 

دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر پچاس منٹ میں ایک عورت زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہے اور دیہی علاقوں میں یہ خطرہ کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یو این ایف پی اے کی رپورٹ کے مطابق مانع حمل ادویات اور محفوظ زچگی کی سہولیات کی فراہمی اب بھی لاکھوں خواتین کی دسترس سے دور ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں یونیورسل ہیلتھ کوریج انڈیکس صرف 21 فیصد ہے، جو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مایوس کن حد تک کم ہے۔

یہ حالات نہ صرف خواتین کی صحت بلکہ پورے خاندان اور معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود خاندانی منصوبہ بندی پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ اگر یہی رفتار جاری رہی تو پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح صفر ہونے میں 122 سال اور خاندانی منصوبہ بندی کی ضروریات پوری ہونے میں مزید 93 سال لگ سکتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں ایک عام رجحان یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی بات صرف عورتوں تک محدود رکھی جاتی ہے، جبکہ مرد کو اس میں شمولیت کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ مرد حضرات کونڈم جیسے آسان اور محفوظ طریقوں کو استعمال کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس سے جنسی عمل کی لذت کم ہو جاتی ہے یا یہ طریقہ ناقابل اعتبار ہے۔ مزید یہ کہ نس بندی جیسے مستقل حل کو بھی مردانگی پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف، خواتین کو مختلف مانع حمل ادویات اور طریقوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، جن کے استعمال کے نتیجے میں جسمانی ہارمونز پر اثر پڑتا ہے، لیکن ان کے اثرات اور نقصانات سے متعلق خواتین کو زیادہ آگاہی فراہم نہیں کی جاتی۔

پاکستان میں خواتین کی تعلیم کی کمی کے باعث ان کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ مانع حمل ادویات یا طریقہ کار کے استعمال سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب، خواتین کی صحت کے مسائل کو عموماً  گھروں اور ہسپتالوں میں کم اہمیت دی جاتی ہے، جس سے ان کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔

خاندان میں عورت کا کردار ہر ذمہ داری نبھانے کی حد تک محدود ہے جبکہ مرد پر صرف معاشی ذمہ داری ہی اہم سمجھی جاتی ہے۔ لیکن مانع حمل ادویات اور طریقہ کار کے حوالے سے مردوں کو مکمل دور رکھنا عورت کی جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ زیادتی ہے۔

عورت کے جسم پر کسی اور کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ اسے یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ کب اور کتنے بچے پیدا کرنے ہیں۔ یہ شعور اور سہولیات فراہم کرنا نہ صرف حکومت بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ عورت کا جسم ایک انسانی زندگی کی تشکیل کا ذریعہ ہے، نہ کہ ایک میدان جنگ جہاں سماجی روایات اور ذمہ داریوں کا بوجھ اس پر ڈالا جائے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔