خانہ جنگی کا شکار یمن، ہیضے کی بھی آماج گاہ
10 اگست 2017ٹوٹے ہوئے فٹ پاتھ پر الٹیاں کرتے اور گرتے لوگ تو دکھائی دیتے ہیں، مگر یمن میں ہیضے سے متاثرہ کئی افراد میں اتنی سکت بھی باقی نہیں بچی ہے کہ وہ قریبی طبی مرکز تک پہنچ سکیں۔ یمن میں کئی مقامات پر مختلف عمارتوں کے آنگنوں میں درختوں کے ساتھ آئی وی کے حامل مائع کی بوتلیں لٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جو ہیضے سے متاثرہ کسی شخص کو زندگی کی نوید دے سکتی ہیں۔
یمن کے شمالی صوبے حاجا کا بنی حیدان کا قصبہ اس وبا سے شدید متاثرہ ہے، جہاں کئی سو افراد مشتبہ طور پر ہیضے کا شکار ہیں۔ اس وبا سے متاثر ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد الٹیاں اور جسم میں پانی کی شدید کمی پیدا ہو جاتی ہے اور بروقت دوا نہ ملنے پر کسی شخص کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔
یمن میں گزشتہ دو برس سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ہیضے کی وبا ایک جان لیوا صورت حال کا باعث بن چکی ہے۔ نکاسیء آب کی ابتر صورت حال، پینے کے پانی کے کنوؤں میں غلاضتوں اور آلودگی کے ڈھیر کئی کئی ہفتوں تک صاف نہیں کئے جا سکتے، جس کی وجہ سے ہیضے کے جراثیم کے لیے یہ علاقہ انتہائی سازگار ہو چکا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طبی ملازمین کو تنخواہوں کی بہ دیر فراہمی کی وجہ سے اس ملک کا صحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے، جب کہ خانہ جنگی کی وجہ سے کئی علاقوں میں عالمی اداروں کی امدادی سرگرمیوں بھی ممکن نہیں۔
سن 2010 میں ہیٹی میں ہیضے کی بیماری نو ہزار افراد کی موت کا سبب بنی تھی، تاہم یمن میں یہ وبا بدترین صورت حال اختیار کر چکی ہے، جہاں کسی ایک برس میں ہیضے سے متاثرہ افراد کی تعداد غیر معمولی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کے مطابق یمن میں یہ وبا ’خوف ناک حد تک تیز رفتاری‘ سے پھیل رہی ہے۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر برائے ہیومینیٹیرین امور کے سربراہ جارج کورے کے مطابق، یمن ہیضے کی وبا کے لیے بہترین آماج گاہ بن چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وبا کی خطرناک شرح نمو کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر 120 یمنی باشندوں میں سے ایک اس سے متاثرہ ہے۔ رواں برس اپریل سے اب تک یمن میں قریب دو ہزار افراد اس مرض سے ہلاک ہو چکے ہیں جب اس وقت قریب پانچ ہزار افراد یومیہ ہیضے کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔