دوسری جانب اسلام آباد میں حکومتی وزراء کی بوکھلاہٹ ہے۔ ابھی آئی ایس آئی کی سربراہی کی تعیناتی کے قضیے کے بادل چھٹے نہیں تھے کہ حکومت کو ایک اور تنازعے کا سامنا ہے۔
عوام پریشان ہیں اور متاثرہ علاقوں میں کاروبار زندگی ٹھپ ہے۔ اس احتجاج کو تحریک لبیک کا سالانہ ’’انتہا پسندی‘‘ کا میلہ ہی سمجھ لیجیے۔ سن 2017ء کے فیض آباد دھرنے کے بعد سے تو یہی وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔ مطالبات مانو ورنہ یوں سمجھیے کہ ''مذہبی انتہاپسندی کے کارتوسوں سے بھری بندوق‘‘ معاشرے کی کنپٹی پر تانی جائے گی۔
حکومت اپنی بے بسی کا اظہار اور ریاست ''سمجھوتوں اور مجبوریوں‘‘ کی بیساکھیوں کا سہارا لیتے ہوئے سر خم کرتی ہے۔ اس مرتبہ جب پرتشدد احتجاج جاری تھا تو عمران خان حکومت کو تحریک لبیک سے نمٹنے کے لیے طاقت کے استعمال اور مذاکرات کی دو دھاری تلوار پر لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا۔
صبح کو شیخ رشید احتجاج کرنے والوں کی ٹھوڑی اور گھٹنوں ہر ہاتھ رکھتے، صدقے واری جاتے اور شام کو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہو نے کے الزامات داغتے۔ فواد چودھری ٹی ایل پی کو اپنے ٹویٹر پر ''فسادی‘‘ پکارتے اور اس تحریک کا انڈیا کے ساتھ مبینہ تعلق جوڑا جاتا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے حکومت نے تحریک لبیک کے احتجاجی تنازعے سے نمٹنے کے لیے کنفیوژن کی سلیمانی ٹوپی پہن لی ہو۔
لگ بھگ ہفتہ گزر گیا لیکن معاملہ وہیں کا وہیں تھا اور پھر اچانک ٹی وی اسکرینز پر ہمیں خوشی کی نوید سنائی جاتی ہے کہ حکومت اور تحریک لبیک کا معاہدہ ہو گیا ہے، جس میں ’’جوش سے نہیں، ہوش سے کام لیا گیا ہے۔‘‘
ایک طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بیٹھے ہیں، جن کے کئی کردار ہیں۔ کبھی سوٹ بوٹ میں ہوتے ہیں، تو کبھی اپنے مریدوں میں تعویذ گنڈے تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔ درگاہ کے گدی نشین ہیں، ان کے مریدوں کی نظر میں ''مرشد‘‘ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمیں تو ان کی سیاسی کرامات کا علم ہے۔ جس طرح آسانی سے حلیہ بدلتے ہیں، اتنی ہی آسانی سے ماضی میں سیاسی وابستگیوں کو تبدیل کرنے میں مہارت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
دوسری جانب پگڑیوں میں تحریک لبیک کے رہنما ہیں اور ان کے درمیان میں وہ شخصیت ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ہم عید اور دوسرے مذہبی تہوار اسلامی اجازت کے بغیر کیسے مناتے؟ چاند کی پیش گوئیوں کو اسلامی لبادہ پہنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے مفتی منیب الرحمان کے کلمات کے بغیر عید منانے کا تصور بھی نہیں کیا لیکن ان کے ناقدین انہیں ’’سرکاری مولوی‘‘ کہتے ہیں۔
سنا ہے ’’رکھوالوں‘‘ کی ہاٹ لائن پر موجود ہوتے ہیں۔ جب کوئی بحران ہو مفتی صاحب پنڈی اور اسلام آباد میں وارد ہو جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی، جب تحریک لبیک کے مظاہرین نے حکومت کی نہ مانی، ضمانت اور ضامن مانگے تو تحریک لبیک کے بریلوی مسلک سے تو مفتی منیب صاحب موجود تھے اور ایک دوسرے ضامن کا مطالبہ تھا، جن کا ماضی میں ’’فیض‘‘ حاصل رہا۔
فیض آباد دھرنے کے معاہدے پر جنرل فیض، جو ان دنوں آئی ایس آئی کی سربراہ ہیں اور کچھ دنوں بعد رخصت ہو کر پشاور کے کور کمانڈر کا عہدہ سنبھالیں گے، ان کے دستخط موجود تھے۔ اُس معاہدے کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری ہوئیں۔ اس مرتبہ ایک اور تصویر گردش میں ہے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب درمیان میں ہیں، ایک طرف معروف کاروباری شخصیت اور دوسری جانب مفتی منیب الرحمان ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس ملاقات کے بعد ہی ٹی وی اسکرینز پر حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدے کی ’’خوشخبری‘‘ سنائی گئی۔ ہم بھی اسی پریس کانفرنس کی طرف رخ اختیار کرتے ہیں۔
مفتی منیب نے قوم پر احسان جتایا کہ کس فہم و فراست سے حالات کو خون خرابے سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ معاہدے کی شقوں کو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے اور میڈیا کو تلقین کی گئی ہے کہ چند روز اپنی”دکان نہ چمکائیں‘‘، گویا خاموشی اختیار کریں۔ مفتی صاحب دکان کس نے چمکائی ہے؟ وہ سب کو علم ہے۔
جب وہاں موجود صحافیوں نے سوال پوچھنے کی کوشش کی تو شاہ محمود قریشی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا، ''یہاں کوئی سوال جواب نہیں ہوں گے۔‘‘ ہمیں منیر نیازی صاحب کا شعر یاد آ گیا لیکن کچھ ترمیم کی جرات کے ساتھ،
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
اعمال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
آپ ایک کالعدم تنظیم سے معاہدہ کرتے ہیں اور عوام کو اجازت بھی نہیں کہ وہ جان سکے کہ کیا شرائط طے ہوئی ہیں؟ سب کچھ سامنے ہو رہا ہے اور آپ ہمیشہ کی طرح عوام کی آنکھوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ پولیس والوں کی ہلاکتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ آپ انہیں انتہاپسند جتھوں کے سامنے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ طاقت کا استعمال کریں یا خاموش رہیں؟ اپنی جانوں کی قربانی دیں یا ہتھیار ڈال دیں؟
اس کنفیوژن کی سلیمانی ٹوپی سے آپ کی حکومت اور ریاست خود کو دھوکے میں رکھنا چاہتی ہے۔ خیر کئی دہائیوں سے ملک کی آپ بیتی بھی کچھ یوں ہی ہے۔ چاہے حکمران عوام کے منتخب ہوں یا فوجی آمر، سوال پوچھنے کی اجازت کس نے دی ہے؟ ہمیں تو یاد نہیں پڑتا کہ کبھی عوام کو اعتماد میں لیا گیا ہو۔ ملک کو افغان جنگ میں جھونکا گیا، اپنے آنگن میں انتہاپسندی کے انگاروں کے ڈھیر لگائے گئے، جن سے اب تک شعلے بھڑک رہے ہیں۔
نوے کی دہائی میں دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا گیا تو پارلیمنٹ میں کون سی بحث ہوئی؟ جنرل مشرف نے قوم کو صدر بش کی دھمکی آمیز فون کال سے خاموش کیا۔ ڈرون حملوں کی خاموشی سے اجازت بھی دی، قوم سے امریکیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کروائے، فوجی اڈے بھی امریکا کے حوالے کیے تو عوام سے کون سا ووٹ لیا گیا؟
تحریک طالبان پاکستان، جس کا دامن ہمارے سیکورٹی اہلکاروں، اے پی ایس اسکول کے بچوں اور معصوم شہریوں کے خون سے تر ہے، اس سے مذاکرات کا انکشاف وزیراعظم عمران خان کرتے ہیں، نا پارلیمنٹ میں بحث، نا سوال اور نا ہی جواب۔ خیر ماضی میں حافظ گل بہادر سے معاہدہ ہو یا صوفی محمد سے، انتہاپسندوں سے معاہدوں کی ناکامی کی ایک تاریخ ہے۔
اب تحریک لبیک سے ایک اور’’نامعلوم معاہدہ‘‘ طے پایا ہے۔ وقتی طور پر ان کی شرائط تسلیم کر کے معاملے کو عارضی طور پر تو ٹالا جا سکتا ہے لیکن ہر معاہدے سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور انتہا پسند طاقتور۔ تحریک لبیک کو ہی لے لیجیے۔ اگر چند برس قبل کمر پر تھپکی نہ دی جاتی، قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو یہ تحریک شاید اتنی بڑی طاقت نہ بنتی کہ ہر سال ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی۔
سیاسی جماعتیں اور حکومتیں سیاسی فوائد کے لیے ان ایسی جماعتوں سے انتخابی گٹھ جوڑ کر لیتی ہیں اور انہیں مستقل بنیادوں پر معاشرے میں سیاسی قبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف، یہ سبھی کہیں نہ کہیں اس گٹھ جوڑ میں شامل رہے ہیں۔
سن گن ہے کہ تحریک لبیک پر سےکالعدم تنظیم کا داغ ہٹا دیا جائے گا اور اسے ایک سیاسی مذہبی قوت کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا۔ حکومت اس جماعت کے سربراہ سعد رضوی صاحب کی رہائی میں رکاوٹ نہیں بنے گی اور بدلے میں تحریک لبیک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور سفارتخانے کو بند کرنے جیسے مطالبات سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ آپ فیصلہ کر لیں کس کی جیت اور کس کی ہار ہے؟
تحریک انصاف کے کچھ سیاسی جغادریوں کو لگتا ہےکہ تحریک لبیک کو اگر سیاسی جماعت تسلیم کر لیا جائے تو آئندہ انتخابات میں بالخصوص پنجاب میں شریف خاندان کی ن لیگ کے ووٹ تقسیم ہوں گے اور سیاسی دشمنوں کو نقصان بھی ہو گا۔ آج کا فائدہ لیکن کل کے لیے ناقابل تلافی نقصان، ہماری سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ یہ سبق سیکھنے سے قاصر ہی ہیں۔
انتہاپسند اور عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ معاہدوں سے عالمی برادری کی نظروں میں اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرے میں انتہاپسندی کو بھی فروغ ملتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلوچ قوم پرست ہوں، سندھی یا پشتون قوم پرست، وہ آپ کی نظروں میں ریاست مخالف ہیں۔ قوم پرست ملک کے آئین اور قانون کے تحت، جائز اور شاید کسی کی نگاہ میں کچھ ''ناجائز‘‘، اپنے حقوق مانگتے ہیں۔ لیکن انتہاپسند ریاست پر اپنا نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے دنیا بھر میں ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے کالے داغ کو اپنے سے دور رکھنے کی لڑائی کیسے ممکن ہو گی؟ امریکا کی جانب سے افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے ملبے کو آپ اپنے اوپر گرنے سے کیسے محفوظ کیسے رکھ سکیں گے؟
ماضی کی غلطیوں کا بوجھ پہلے ہی ریاست کے کاندھوں پر ہے، معاشرے کی بنیادیں انتہاپسندی سے کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ اس موڑ پر انتہاپسندوں سے معاہدوں کی خوشی آپ کو مبارک اور سوال جواب سے محروم کرنے کا افسوس اور اپنی خاموشی ہمیں مبارک!