ختنہ شدید جسمانی نقصان کا باعث ہے، جرمن عدالت
27 جون 2012یہ فیصلہ منگل کو کولون کی ایک علاقائی عدالت میں سامنے آیا ہے۔ یہودی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اس سے والدین کے مذہبی حقوق پامال ہوں گے۔
عدالت نے اس فیصلے میں کہا ہے کہ اپنے جسم پر بچے کے حقوق والدین کے حقوق سے زیادہ ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر والدین بچے کے اس عمر تک پہنچنے کا انتظار کرتے ہیں، جب وہ ختنے سے متعلق خود فیصلہ کر سکے تو پھر ان کی مذہبی آزادی اور اپنے بچے کو تعلیم دینے کے حق پر سمجھوتہ نہیں ہوتا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے کے نتیجے میں سنایا گیا ہے، جو کولون ہی کے ایک ڈاکٹر کے خلاف تھا۔ اس ڈاکٹر نے چار برس کے ایک مسلمان بچے کا اس کے والدین کے کہنے پر ختنہ کیا تھا۔
ختنے کے چند دِن بعد اس کا بہت زیادہ خون بہنے پر والدین اسے ہسپتال لے گئے۔ اس کے نتیجے میں استغاثہ نے بچے کو شدید جسمانی نقصان پہنچانے کا الزام دیتے ہوئے ڈاکٹر پر مقدمہ قائم کیا تھا۔
ایک ذیلی عدالت نے ڈاکٹر کو رہا کر دیا تھا۔ اس عدالت کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نے والدین کے کہنے پر بچے کا ختنہ کر کے قانون کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔
عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی تو علاقائی عدالت نے بھی ڈاکٹر کی رہائی کا حکم جاری کیا، تاہم اس مرتبہ اسے مختلف وجوہات پر رہا کیا گیا۔ علاقائی عدالت نے ڈاکٹر پر بچے کو جسمانی نقصان پہنچانے کا الزام برقرار رکھا، لیکن یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر بے قصور ہے ، جس کی وجہ ختنے سے متعلق قانون میں پایا جانے والا ابہام ہے۔
جرمنی میں آباد یہودیوں نے اس فیصلے پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ ان کی سینٹرل کمیٹی کے سربراہ ڈیٹیر گراؤمان کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی گروپوں کے حقِ خود ارادیت میں مداخلت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اس مذہبی حق کا احترام کیا جاتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ فیصلہ قانونی مثال بن سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پندرہ سال یا اس سے زائد عمر کے ہر تین میں سے ایک لڑکے کا ختنہ کیا جاتا ہے۔
ng/at (AFP)