’خدا قسم میں زندہ ہوں‘
21 جنوری 2021بھارت میں ہزاروں افراد کو دھوکے میں رکھ کر سرکاری دستاویزات میں مردہ قرار دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے حقوق اورجائیداد سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو زندہ ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن کامیابی نہیں مل پا رہی ہے۔
اترپردیش میں فخرالدین پور گاوں کی ستر سالہ بیوہ بھگوانی دیوی گزشتہ برس اچانک یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ سرکاری ریکارڈ میں انہیں مردہ قرار دیا جا چکا ہے۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد بھگوانی دیوی اپنے شوہر کے مکان اور زرعی زمین کی قانونی وارث ہیں۔ تاہم ان کے دیور نے سرکاری حکام کو رشوت دے کربھگوانی کو مردہ قرار دلوا دیا اور زمین اور جائیداد اپنے نام کروالی۔
بھگوانی کے داماد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”وہ بوڑھی اور کمزور ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے دیور نے اراضی کا ریکارڈ رکھنے والے افسران کورشوت دے کر بھگوانی کو مردہ قرار دے دیا۔ اس عمر میں وہ انصاف حاصل کرنے کے لیے کس طرح لڑائی لڑیں گی۔ وہ غریب بھی ہیں حتی کہ ان کے پاس کوئی موبائل فون بھی نہیں ہے کہ ضرورت پڑنے پر ہم سے رابطہ کرسکیں۔"
بھگوانی کی بیٹی اور داماد کو خوف ہے کہ کوئی انہیں نقصان نہ پہنچا دے۔ بھگوانی کے داماد کہتے ہیں ”جب آپ سرکاری طورپر مرچکے ہیں تو آپ سچ مچ میں مرجائیں یا کوئی قتل کردے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہمیں ان کی جان کا خطرہ ہے۔"
بھگوانی بھارت میں ایسے ہزارو ں افراد میں سے ایک ہیں جو سرکاری دستاویزات میں مردہ قرار دیے جا چکے ہیں حالانکہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔
’انہوں نے کہا، ارے تم تو مرچکے ہو‘
لال بہاری کا تعلق اترپردیش کے اعظم گڑھ سے ہے۔ 66 سالہ لال بہاری کسان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد نے ایک سازش کے تحت انہیں 'مردہ‘ قرار دلوا دیا کیو نکہ وہ لوگ ان کی زمین ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔
لال بہاری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”میرے چچا اور ان کے خاندان کے افراد نے 1976 میں اراضی کے سرکاری دستاویزات میں مجھے مردہ قرار دلوا دیا۔ انہوں نے گاوں کے پٹواری اور ریونیو اکاونٹ افسر کو رشوت دے کر یہ کام کیا۔"
لال بہاری کہتے ہیں، ”ان لوگوں نے میرے منہ پر کہا کہ ارے تم تو مرچکے ہو اور تمہارا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ میرے ساتھ ایک بے رحم مذاق تھا۔ میں نے خود کو زندہ ثابت کرنے کے لیے ہر دروازے پر دستک دی۔ لیکن اراضی کے ریکارڈ میں غلطی کو تسلیم کرنے کا مطلب نظام میں بدعنوانی کو تسلیم کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے میری بات پر توجہ نہیں دی۔"
لال بہاری کو اس صورت حال کی وجہ سے سخت ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا۔ گاوں میں لوگ ان کا مذاق اڑاتے، انہیں بھوت کہہ کر چڑھاتے۔ چونکہ ان کے پاس کوئی سرکاری دستاویز نہیں تھا اس لیے وہ جلد ہی بھارتی شہری کی حیثیت سے اپنے دیگر حقوق اور مراعات سے بھی محروم ہوگئے۔ کئی سال تک عدالتوں کے چکر لگانے اور وکیلوں کی فیس ادا کرنے کے لیے انہیں اپنا چھوٹا سا کارخانہ بھی فروخت کر دینا پڑا۔"
لال بہاری بڑی مایوسی سے کہتے ہیں ”میرے بچوں کو یتیم کی طرح جینا پڑا اور سماج میں میری بیوی کے ساتھ بیوہ جیسا سلوک کیا گیا۔ ہمارے کھانے کے لالے پڑگئے۔ میں اپنے وقار کے لیے لڑنا چاہتا تھا۔ ایک انسان کی حیثیت سے میرے بنیادی حقوق تک مجھ سے چھین لیے گئے۔ کوئی بھی افسر اس پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں تھا حتی کہ کچھ نے تو یہ بھی کہہ دیا جو کچھ ہوا میں اسے بھول جاوں۔"
’انجمن متوفیان‘
لال بہاری نے تاہم ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے ضلع افسر، ریاست کے وزیر اعلی، بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی صدر کو بھی خطوط لکھے لیکن کہیں سے بھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دی۔ کوئی بھی انہیں زندہ ماننے کے تیار نہیں ہوا۔
لال بہاری نے سن 1980 میں 'اترپردیش انجمن متوفیان‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اپنے نام میں ہندی کا لفظ 'مرتک‘ جوڑ لیا جس کے معنی ہیں 'متوفی‘۔ جلد ہی انہیں متعدد'زندہ متوفیوں‘ کی حمایت حاصل ہوگئی اور یہ خبر آس پاس کے گاوں تک پھیل گئی۔
لال بہاری نے خود کو زندہ ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے بھی آزمائے۔ مثلا ً انہوں نے اس امید پر اپنے ہی بھانجے کا اغوا کرلیا کہ پولیس ان کے خلاف مقدمہ درج کرلے گی۔ حتی کہ انہوں نے اپنی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم کے خلاف الیکشن میں مقابلہ بھی کیا۔
لال بہاری کہتے ہیں، ”میں نے دیگر'مردہ‘ افراد کے ساتھ ارتھیوں کے جلوس بھی نکالے۔ ہم کسی بھی طرح یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں۔ ہم نے چھوٹے چھوٹے جرائم بھی کیے تاکہ گرفتار کرلیے جائیں لیکن پولیس نے سرکاری رپورٹ میں کبھی بھی نام درج نہیں کیا۔"
بہر حال اٹھارہ برس کے بعد 1994 میں ایک زبردست مظاہرے کے نتیجے میں حکام نے لال بہاری کو زندہ تسلیم کرلیا اور ان کی جائیداد انہیں واپس مل گئی۔
فلم کا موضوع
لال بہاری کی کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ اس نے بالی ووڈ کے ایک فلم ساز کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا اور 'کاغذ‘ کے نام سے حال ہی میں فلم ریلیز ہوئی ہے جس میں پنکج ترپاٹھی نے لال بہاری کا کردار ادا کیا ہے۔
ترپاٹھی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”مجھے انتہائی مسرت ہے کہ میں نے یہ کردار ادا کیا۔ یہ ایک شہری اور حکومت کے درمیان تصادم کی افسوس ناک مثال ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد ایک سینیئر پولیس افسر نے مجھے فون پر بتایا کہ لال بہاری کی کہانی نے انہیں جھنجھوڑ ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو ایسے کیسز کے تئیں زیادہ حساس ہونا چاہیے۔ یہ بلاشبہ کسی کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔"
بیس ہزار سے زائد'متوفی‘ ممبران
لال بہاری کی تنظیم 'اترپردیش انجمن متوفیان‘ کے قیام کے بعد اس کے ممبروں کی تعداد بڑھ کر بیس ہزار ہوچکی ہے۔ یہ تنظیم بھارت میں غلطی سے مردہ قرار دے دیے گئے زندہ لوگوں کی طرف سے مقدمات بھی لڑتی ہے۔
تنظیم کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل کرشن کنہیا پال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں یوں بھی انصاف بہت تاخیر سے مل پاتا ہے۔”بعض اوقات لوگ اپنے بنیادی حقوق کے لیے لڑتے لڑتے اس دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ میں ان لوگوں کا مقدمہ لڑتا ہوں جو بہت غریب ہیں۔"
پال کہتے ہیں ”بھارت میں ایسے کیسز کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔"
آکانشا سکسینہ/ جاوید اختر