گھر بار سے محروم ہونے والوں کی تعداد کا نیا ریکارڈ
20 جون 2021اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین 'یو این ایچ سی آر‘ کی عالمی رجحانات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق تشدد، تنازعات، ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سبب اپنے گھر بار چھوڑ نے پر مجبور انسانوں کی تعداد بڑھ کر 82.4 ملین ہو چُکی ہے۔
جمعہ 18 جون کو جینیوا سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کہا گیا ہے کہ تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے، جو گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے، نقل مکانی اور فرار کے 'گلوبل ٹرنڈ‘ یا عالمی رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 2019 ء کے اواخر میں لگائے جانے والے ایسے ہی اندازوں میں ایسے انسانوں کی تعداد 79.5 تھی جس کے مقابلے میں اس بار اس رجحان میں 4 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔لاکھوں مہاجرین کی آمد کے پانچ سال بعد جرمنی آج کہاں کھڑا ہے؟
دنیا بھر میں ایسے پناہ گزینوں کی اکثریت کی میزبانی ایسے ممالک کر رہے ہیں جو سرحدی بحران والے علاقوں میں واقع ہیں جبکہ ان ممالک کا شمار پست یا متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے۔ حیران کن بات یہ کہ دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک دنیا کے 27 فیصد مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔
'یو این ایچ سی آر‘ کے مینڈیٹ میں شامل 20.7 ملین مہاجرین میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 5.7 ملین اور وینیزویلا کے پناہ گزینوں کی تعداد 3.9 ملین تھی۔ مزید برآں 48 ملین افراد خود اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو چکے ہیں۔4.1 افراد سیاسی پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
موریا کیمپ: یورپ کی مہاجرین کے بحران میں ناکامی کی علامت
کورونا بحران اور لاک ڈاؤن
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے اس تازہ ترین رپورٹ کے شائع ہونے سے پہلے ہی ایک انٹرویو میں کہا تھا،'' ہم بات کر رہے ہیں ایک ایسے سال کی جس میں ہم سب مکمل طور پر لاک ڈاؤن میں تھے۔ اپنے اپنے گھروں، برادریوں اور اپنے ممالک میں بند تھے۔‘‘ گرانڈی کے مطابق کورونا کی وبا بھی بے گھر ہونے والے اور اپنی بقا کے لیے فرار پر مجبورانسانوں کی نقل مکانی یا ہجرت کے سیلاب کو نہ روک سکی۔ انہوں نے بتایا کہ قریب 3 ملین افراد سب کچھ پیچھے چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں نکلنے پر مجبور تھے۔
فلیپو گرانڈی نے کہا کہ تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے شکار ملک موزمبیق ، ایتھوپیا کے علاقے ٹیگرے اور افریقہ کی نیم صحرائی پٹی 'ساحل‘ میں 2020 ء میں داخلی طور پر بے گھر ہو نے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد پناہ کی تلاش میں رہے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق2020 ء مسلسل نواں سال تھا جس میں حالات سے مجبور ہو کر انسانوں کو جبری نقل مکانی کرنا پڑی۔
جرمنی: سیاسی پناہ کے خواہش مند افراد کی تعداد میں کمی
سب سے زیادہ پناہ گزین ترقی پذیر ممالک میں
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین 'یو این ایچ سی آر‘ کے ترجمان کرس ملسر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 86 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا،'' یہ زیادہ تر وہ ممالک ہیں جو خود غذائی قلت اور دیگر مشکلات سے دو چار ہیں۔‘‘
کرس ملسر نے پناہ گزینوں کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے کہا،'' میں نے بہت سے پناہ گزینوں کو یہ کہتے سنا کہ ہماری نسل تو تباہ ہو چُکی ہے، ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں لیکن خُدارا ہماری اگلی نسل، ہمارے بچوں کے لیے کُچھ کریں۔ انہیں موقع دیں اپنا مستقبل سنوارنے کا۔‘‘ کرس ملسر کا کہنا ہے کہ ان تباہ حال مہاجرین کے مستقبل کا دار ومدار تعیلم پر ہے۔
یواین ایچ سی آر کی اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت مہاجرین کے طور پر باضابطہ تسلیم شدہ افراد کی دو تہائی کا تعلق صرف 5 ممالک شام، وینیزویلا، افغانستان، جنوبی سوڈان اور میانمار سے ہے۔یونانی جزیرے پر مہاجر کیمپ میں نوجوان افغان خاتون جل کر ہلاک
پناہ کے متلاشی افراد کے میزبان ممالک
تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ لگاتار چوتھے سال بھی جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی تعداد کم ہو کر قریب ڈیڑھ ملین رہی۔ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ملک ترکی 3.7 ملین پناہ گزینوں کا بوجھ اُٹھاتے ہوئے میزبان ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر رہا۔ اس کے بعد 1.7 ملین پناہ گزینوں، جن میں وینیزویلا کے بیرون ملک بے گھر افراد بھی شامل ہیں کے ساتھ کولمبیا دوسرے نمبر پر اور جرمنی ڈیڑھ ملین پناہ گزینوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔
ک م/ ع ح ( اے پی، اے ایف پی)