خرطوم کی ایک فوجی فیکٹری پر اسرائیل نے فضائی کارروائی کی، سوڈان کا الزام
25 اکتوبر 2012سوڈان کا دعویٰ ہے کہ فوجی فیکٹری پر یہ حملہ اسرائیلی طیاروں نے کیا ہے، تاہم اسرائیلی وزارت دفاع نے اس الزام پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ سوڈان حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں اسلحے کی ترسیل کے لیے ایک اہم روٹ ہے اور وہیں سے مصر کے راستے غزہ تک ہتھیار پہنچتے ہیں۔ اس سے قبل بھی سوڈان کی جانب سے اسرائیل پر ایسے حملوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں، تاہم اسرائیلی حکومت کی جانب سے ان حملوں کی نہ تو کبھی تصدیق کی گئی ہے اور نہ تردید۔
اسرائیل کے چینل ٹو نیوز پر اسرائیلی وزیر دفاع کا اس الزام کے حوالے سے کہنا تھا، ’ایسا کچھ نہیں ہے کہ میں اس حوالے سے کچھ کہہ سکوں۔‘
واضح رہے کہ منگل کے روز سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے جنوب میں ہتھیار بنانے والی فیکٹری یرموک میں اچانک شدید آگ بھڑک اٹھی تھی، جبکہ اس کے بعد متعدد دھماکے بھی ہوئے۔ اس آگ پر قابو پانے میں تقریباﹰ دو گھنٹے صَرف ہوئے۔ واضح رہے کہ یرموک فیکٹری سوڈان میں گولہ بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری کے لحاظ سے سب سے اہم کارخانہ ہے۔
سوڈان کے وزیر اطلاعات احمد بلال عثمان نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’چار فوجی جہازوں نے یرموک پلانٹ پر حملہ کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل ہے۔‘
انہوں نے دھمکی دی کہ سوڈان یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ وہ اسرائیل پر جوابی حملہ کر دے۔ عثمان نے بتایا کہ اس واقعے میں دو شہری ہلاک اور ایک شدید زخمی ہوا جبکہ کارخانے کو جزوی نقصان پہنچا۔ انہوں نےکہا کہ طیاروں نے اس کارخانے کو مشرق کی جانب سے حملہ کر کے نشانہ بنایا۔
اس واقعے کے بعد تقریباﹰ تین سو افراد نے سوڈان کی کابینہ کی ہنگامی میٹنگ کے موقع پر ایک سرکاری عمارت کے باہر اسرائیل مخالف نعرے لگائے۔
سوڈان کے نائب صدر علی عثمان طحہ نے کہا، ’اسرائیل ناانصافی پر قائم ملک ہے، جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اس حملے سے ہمارے انہی خیالات کو تقویت پہنچی ہے۔‘
واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد اپنے بیان میں خرطوم کے گورنر نے اس حوالے سے کسی ’بیرونی ہاتھ‘ کے خیال کو مسترد کیا تھا۔ تاہم بعد میں صحافیوں کو جائے واقعہ کی فلم دکھائی گئی، جس میں تباہ شدہ عمارات کے ساتھ ایک راکٹ بھی دکھایا گیا۔‘ عثمان نے بتایا کہ اس راکٹ کے ملبے اور دیگر مواد سے واضح ہے کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا۔
at/ng (Reuters)