خسرے کے خاتمے کی کوششیں رک گئیں، عالمی ادارہ صحت
14 نومبر 2014جمعرات کے روز عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ سن 2013ء میں اس بیماری کے نتیجے میں ایک لاکھ 45 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2012ء میں یہ تعداد ایک لاکھ 22 ہزار رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق خسرے سے ہونے والی ہلاکتوں میں چین، کانگو اور نائجیریا میں اس بیماری کا پھیلاؤ دیکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک جارجیا، ترکی اور یوکرائن میں بھی اس متعدی بیماری نے درجنوں افراد کی جان لے لی۔
عالمی ادارہ صحت کے اِمیونائزیشن کے شعبے سے وابستہ پیٹر سٹیربیل کے مطابق، ’’اس خطرے کو روکا نہ گیا تو اس بیماری کی وجہ سے ہلاکتوں میں کمی کی عشروں سے جاری کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کئی ممالک کو اس بیماری کی روک تھام کو اپنی بڑی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس خسرے کی وجہ سے ہونے والی اموات سن 2000 کے مقابلے میں 75 فیصد کم رہیں تاہم ہزاریہ اہداف میں سن 2015ء تک اس بیماری سے ہونے والی ہلاکتوں میں 95 فیصد کمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ خسرے کی بیماری بچوں میں اموات کی بڑی وجہ رہی ہے۔ عالمی سطح پر کم عمر بچوں کو اس بیماری کا باعث بننے والے وائرس سے تحفظ کے لیے ویکسین پلانے کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس کوششوں کی وجہ سے اس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس بیماری کی وجہ سے گزشتہ برس ہلاکتوں میں پھر اضافہ خطرے کی نئی گھنٹی ہے۔
اس عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خسرے کی وجہ سے 70 فیصد سے زائد ہلاکتیں چھ ممالک میں ہوئیں، جن میں بھارت، نائجیریا، پاکستان، ایتھوپیا، انڈونیشیا اور ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو شامل ہیں۔