1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتامریکہ

خطرہ موجود، نیا عالمی اقتصادی بحران کب آ سکتا ہے؟

19 جون 2022

مہنگائی گزشتہ چالیس برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اسٹاک کی قیمتیں ڈوب رہی ہیں۔ امریکی فیڈرل ریزرو نے شرح سود بڑھاتے ہوئے قرض کا حصول مزید مشکل بنا دیا ہے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کی اقتصادی منڈیاں لڑ کھڑا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4CoW9
USA US-Börsen auf Talfahrt
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

امریکی معیشت رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں ہی سُکڑنا شروع ہو چکی ہے۔ امریکی اقتصادی منڈی ابھی دو برس پہلے ہی گزشتہ عالمی معاشی بحران سے بمشکل نکلی تھی۔ کیا امریکہ ایک مرتبہ پھر تیزی سے کساد بازاری کی جانب بڑھ رہا ہے؟   

بدھ پندرہ جون کو امریکہ کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو (فیڈ) نے افراط زر پر قابو پانے کے لیے بنیادی شرح سود میں تین چوتھائی اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اضافہ گزشتہ تین عشروں میں سب سے زیادہ ہے جبکہ آنے والے دنوں میں اس شرح میں مزید اضافے کا اشارہ دیا گیا ہے۔

فی الحال زیادہ تر ماہرین اقتصادیات مستقبل قریب میں مزید مندی کا رجحان نہیں دیکھ رہے۔ ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود صارفین صحت مند رفتار سے پیسہ خرچ کر رہے ہیں اور کسی معیشت کو چلانے کے لیے یہی چیز سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کاروباری شخصیات ایک مثبت نقطہ نظر کی عکاسی کرتے ہوئے آلات اور سافٹ ویئر  جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

جاب مارکیٹ اب بھی پھل پھول رہی ہے اور برطرفیوں کی شرح کم ہے۔ امریکی اقتصادی تحقیقاتی ادارے 'ہائی فریکوئنسی اکنامکس‘ میں چیف اکانومسٹ روبیلہ فاروقی نے رواں ہفتے لکھا ہے، ''امریکی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں ہے، جو فوری کساد بازاری کی طرف اشارہ دے۔ ملازمتیں پیدا ہو رہی ہیں اور گھرانے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔‘‘

تاہم روبیلہ فاروقی نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے، ''معیشت کو مشکلات کا سامنا ضرور ہے۔‘‘ ایسی علامات پیدا ہو رہی ہیں، جو مستقبل میں کساد بازاری کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق مہنگائی فیڈرل ریزرو بینک کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہوئی ہے اور یہ مستقل بھی ہے۔ دوسری جانب روس کے یوکرین پر حملے نے بھی عالمی سطح پر خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے جبکہ کورونا وباء کی وجہ سے چین میں سخت لاک ڈاؤن لگے اور نتیجتاﹰ سپلائی چین بھی متاثر ہوئی ہے۔

 فیڈرل ریزرو کے چئیرمین نے کہا ہے کہ وہ 'مہنگائی کے جن‘ پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے چاہے انہیں شرح سود میں مزید اضافہ کیوں نہ کرنا پڑا۔

دوسری جانب اقتصادی ماہرین کو یہی خدشات درپیش ہیں کہ فیڈرل ریزرو کی شرح سود میں اضافے کی پالیسی سے معیشت کمزور ہو سکتی ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو فیڈ شاید اگلے سال کے دوسرے نصف میں ممکنہ طور پر کساد بازاری کا باعث بن سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت، جو کہ کئی برسوں سے انتہائی کم قرضے کے ایندھن پر ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ زیادہ شرح سود کا مقابلہ نہ کر سکے۔

زیادہ شرح سود معیشت کو کیسے کمزور کر سکتی ہے؟

زیادہ شرح سود سے اُن شعبوں میں پیسہ کم خرچ ہوتا ہے، جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال ہاؤسنگ سیکٹر ہے۔ شرح سود زیادہ ہو گی تو صارفین بینکوں سے قرض لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ اپریل کے مہینے میں فیکسڈ مورٹگیج میں پانچ فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اتنا زیادہ اضافہ گزشتہ تیس برسوں میں نہیں ہوا۔ ایک برس پہلے یہ شرح تین فیصد سے بھی کم تھی۔ اس کے نتیجے میں گھروں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔

اسی طرح کا رجحان کاروں، فرنیچر یا پھر دیگر مارکیٹوں میں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

سرمایہ کاری کیسے متاثر ہوتی ہے؟

شرح سود میں اضافے سے کاروباری اداروں کے لیے قرض لینے کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کاروباری سرمایہ کاری میں کمی ہونے لگتی ہے۔ اگر کمپنیاں نئے آلات خریدنے یا اپنی صلاحیت کو بڑھانے سے پیچھے ہٹتی ہیں تو نئی ملازمتیں پیدا ہونے کا عمل بھی سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کمپنیوں اور صارفین میں بیک وقت پیدا ہونے والی یہ احتیاط پیسے کی گردش میں مزید کمی کا باعث بنتی ہے اور لوگ اپنے اخراجات کم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

کساد بازاری کی علامات کیا ہیں؟

ماہرین اقتصادیات کے مطابق کساد بازاری کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ بے روزگاری میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے اور نئی ملازمتوں میں کمی آتی جاتی ہے۔ ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جب ہر دس میں سے تیسرا فرد بے روزگار ہو جائے تو اس کے بعد معاشی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔

جرمنی کے ڈوئچے بینک کے ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ فیڈ کو سن 2023ء  کے وسط تک کم از کم 3.6 فیصد تک شرح سود میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا اور یہ اضافہ کساد بازاری کی راہ ہموار کرنے کے لیے کافی ہے۔ تاہم بہت سے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس ممکنہ کساد بازاری کے نقصانات محدود ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق سن 2008ء کے مالیاتی بحران کے برعکس اس وقت امریکی خاندان بہتر مالی حالت میں ہیں۔ ُاس وقت لوگوں کے پاس ملازمتیں ختم ہو چکی تھیں، گھروں کی قیمتیں گر چکی تھیں اور گھریلو بجٹ تباہ ہو کر رہ گئے تھے۔ لہذا ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ ممکنہ کساد بازاری سے حالات زیادہ تباہ کن نہیں ہوں گے۔

 ا ا / ش ر ( اے پی)