خفیہ اسرائیلی، فلسطینی دستاویزات منظر عام پر
25 جنوری 2011لیکن اسرائیل کی طرف سے ان مراعات کو ناکافی کہتے ہوئے ٹھکرا دیا گیا۔ ان خفیہ دستاویزات کی اشاعت پر اطراف کے سرکردہ رہنما شرمندہ نظر آتے ہیں۔ ان خفیہ دستاویزات کے مطابق 2008ء میں ہونے والے مذاکرات کے دوران فلسطینی وفد نے مشرقی یروشلم کے مقبوضہ علاقے کی واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔ خود مختار فلسطينی اتھارٹی کے ترجمان اور اعلیٰ مذاکرات کار صائب اراکات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ انہوں نے اس وقت کی اسرائیلی وزیر خارجہ زپی لیونی سے کہا تھا، ’’ہم نے آپ کے خدشات اور مفادات کو ذہن میں رکھا ہے لیکن سبھی نہیں۔‘‘ دستاویزات کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ مشرقی اور جنوبی یروشلم کے علاوہ مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں کو بھی امن معاہدے میں شامل کیا جائے۔
سابق فلسطینی وزیر زیاد ابو زید کا اسرائیل کے ایک ریڈیو پر انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا،’’ہر وقت اسرائیلی مؤقف پیش کیا جاتا رہا کہ اولمرٹ نے فلسطینیوں کو بہت زیادہ مراعات کی پیشکش کی ہے اور فلسطینی یہ موقع ضائع کر رہے ہیں۔ ان تمام تر دعووں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے برعکس فلسطینی قیادت نے مراعات کی پیشکش کی اور اولمرٹ حکومت کی طرف سے انہیں ٹھکرا دیا گیا۔‘‘
دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس نے قاہرہ میں صدر حسنی مبارک کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد ان الزامات کی تردید کی ہےکہ وہ اسرائیل کو خفیہ مراعات دینے پر تیار تھے۔ صدر عباس کے مطابق یہ صرف اسرائیلی مطالبات تھے، جن کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
لیکن اس کے باوجود ان خفیہ دستاویزات کی اشاعت پر فلسطینی عوام میں شدید غم وغصہ پایا جاتاہے۔ مشرقی یروشلم کے ایک رہائشی کا کہنا ہے،’’فلسطینی رہنماؤں کی اجازت سے غلامی میں رہنے سے بہتر ہے کہ ہم ویسے ہی اس مقبوضہ علاقے شیخ جرح میں رہیں، جو ان کے حوالے کیا جا رہا ہے۔‘‘
الجزیرہ ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے 2000ء سے 2010ء تک امن عمل سے متعلق ہزاروں خفیہ دستاویزات حاصل ہوئی ہیں۔ ایسی دستاویزات کی تعداد سولہ ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہے، جو ملاقاتوں کے ریکارڈز، ای میلز اور فلسطینی، اسرائیلی اور امریکی رہنماؤں کے مابین رابطوں کی تفصیلات پر مشتمل ہیں۔ الجزیرہ کی جانب سے جاری کی گئی دستاویزات کے مطابق فلسطینی رہنماؤں نے بیت المقدس کے علاقے کو ایک عالمی کمیٹی کی نگرانی میں دینے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک