خلیج میکسیکو: بحران قابو سے باہر ہوتا ہوا
31 مئی 2010وفاقی امریکی حکومت کو البتہ امید ہے کہ برٹش پیٹرولیئم حالات پر قابو پانے کی نئی تکنیک جلد متعارف کرائے گی۔
بیس اپریل کے اس حادثے کو واشنگٹن حکومت میں توانائی کے امور کے مشیر کیرل براؤنر نے امریکی تاریخ کا سب سے بڑا ماحولیاتی بحران قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق سنگین ترین صورتحال سے نمٹنے کی تیاریاں کرلی گئی ہے۔ براؤنر کے اندازے کے مطابق خلیج میکسکو میں اگست تک تیل کے رساؤ کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست لوئیزیانا ہے۔ مچھلی کی پیداوار کے حوالے سے مشہور اس ریاست سمیت ریاست مسی سیپی اور ریاست الاباما میں وفاقی امریکی حکومت نے فشری کی صنعت کو بحران زدہ قرار دے دیا ہے۔ لوئیزیانا میں ڈھائی ارب ڈالر کی ماہی گیری کی صنعت امریکہ بھر میں مچھلی کی چالیس فیصد ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق ستائیس ہزار افراد اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق اب بھی خلیج میکسکو کی امریکی سمندری حدود کا پچہتر فیصد ماہی گیری کے قابل ہے۔ بقیہ پچیس فیصد میں ماہی گیری پر پابندی عائد کی جاچکی ہے، جس سے سینکڑوں خاندان متاثر ہوئے ہیں۔
لوئیزیانا کے قریب واقع بریٹون اور چیندی لیور جزائر پر موجود جنگلی حیات کی بقاء بھی خطرے سے دوچار ہے۔ وائلڈ لائف حکام کے مطابق ساحلوں کے پاس پانچ سو کے قریب پرندے، ڈھائی سو کچھوے اور ڈولفن مچھلی سمیت لگ بھگ تیس دیگر ممالیہ جاندار مردہ حالت میں پائے گئے ہیں۔ صورتحال پر نظر رکھے صحافیوں اور سائنس دانوں نے ایک شارک مچھلی کی ہلاکت کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ اس بگڑتی صورتحال سے ان تینوں ریاستوں میں سیاحت کی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ ساحلی علاقوں میں کشتی رانی اور ہوٹلنگ کی صنعت سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیزن کے باوجود سیاح علاقے کا رخ نہیں کررہے۔ ادھر ریاست فلوریڈا کے ساحلوں پر بھی خوف وہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، جہاں سیاحت کی صنعت کا حجم سالانہ ساٹھ ارب ڈالر ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والے آئل پلیٹ فارم کی انتظامیہ ’’برٹش پیٹرولیئم‘‘ نے متاثرہ ریاستوں کو اس ضمن میں لاکھوں ڈالر معاوضہ ادا کیا ہے۔ خلیج میکسکو پر قائم امریکی بندرگاہوں پر اگرچہ کام معمول کے مطابق جاری ہے تاہم حکام نے بہتے تیل کی وجہ سے جہازوں کی آمد میں تاخیر کی شکایت کی ہے۔ دریائے مسسی سیپی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے سالانہ پچاس ملین میٹرک ٹن اناج، جوار اور سویابین برآمد کیا جاتا ہے۔
اس بڑھتے بحران کی حل کی کوششیں بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ برٹش پیٹرولیئم پہلے ’ٹاپ کل‘ نامی تکنیک کے ذریعے متاثرہ کنویں سے تیل کے رساؤ کو روکنے کی کوشش کررہی تھی۔ تاہم زیر سمندر اس کوشش میں ناکامی کے بعد اب لوئر میرین رائزر پیکیج نامی تکنیک آزمائی جائے گی، جس میں تیل کے رساؤ کو روکنے کی کوشش نہیں کی جائے بلکہ اس بہتے تیل کو پانی میں شامل ہونے سے روکا جائے گا۔