خلیجی ممالک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، امریکا
20 اپریل 2016عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اوباما کا سعودی عرب کا یہ چوتھا اور غالباﹰ آخری دورہ ہے۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان سعودی عرب کی سلامتی کو ایران اور عسکریت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے ’لاحق خطرات‘ پر بات چیت کی گئی کیوں کہ سعودی حکومت واشنگٹن کے تہران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے پریشان نظر آتی ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق ریاض کے مضافات میں واقع شاہی محل میں امریکی صدر باراک اوباما اور سعودی شاہ سلمان کے مابین بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اس سے پہلے دونوں رہنماؤں نے مترجموں کے ذریعے مختصر رسمی فقروں کا تبادلہ بھی کیا۔
شاہ سلمان کا کہنا تھا، ’’میں اور سعودی عوام بہت خوش ہیں کہ آپ، جناب صدر، اس سلطنت کا دورہ کر رہے ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں اوباما کا کہنا تھا، ’’امریکی عوام نے بھی سلام بھیجا ہے اور ہم آپ کی مہمان نوازی کے شکر گزار ہیں اور ایسا صرف اس ملاقات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ خلیجی ممالک اور امریکا کے مابین ہونے والی سمٹ کی وجہ سے بھی، جو کل سے شروع ہو رہی ہے۔‘‘
امریکی صدر باراک اوباما خلیجی ممالک کے ساتھ ہونے والے کل کے اجلاس میں بھی شریک ہوں گے جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس دوران مرکزی موضوعات داعش کے خلاف جنگ اور علاقائی سیاست رہیں گے۔
امریکی صدر سعودی عرب کا دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں، جب واشنگٹن کے اس خطے میں اپنے پرانے حلیف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کچھ کھچاؤ آیا ہے۔ اس کھچاؤ کی بنیادی وجہ امریکا کے ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری ہے کیوں کہ امریکا ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے حق میں تھا جبکہ سعودی عرب کا موقف تھا کہ اس طرح ایرانی معیشت میں بہتری آئے گی اور وہ علاقائی سطح پر مزید فعال کردار ادا کرنا شروع کر دے گا۔
دوسری جانب باراک اوباما کا یہ دو روزہ دورہ اپنے اقتدار کو الوداع کہنے کی بھی ایک کڑی ہے اور اس سلسلے میں وہ برطانیہ اور جرمنی میں بھی مختصر قیام کریں گے۔ اوباما کے ریاض پہنچنے سے کچھ دیر پہلے امریکی وزیر دفاع کارٹر ایشٹن نے خلیجی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ امریکا اپنے خلیجی اتحادیوں کی سلامتی کے لیے پر عزم ہے۔ اس دوران خلیجی ممالک اور امریکا نے یمن میں ایرانی ہتھیاروں کی ترسیل کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کا فیصلہ بھی کیا۔