خواتین کو بااختیار بنانے کے وعدے اور انتخابات
26 مارچ 2021لیکن یہ وعدے صرف وعدے ہی ہیں۔ آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن کے موقع پر کیے جانے والے وعدوں کی قلعی بس ہفتے بھر بعد ہی اس وقت کھل گئی، جب پانچ ریاستی اسمبلیوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں خواتین کو ٹکٹ دینے کی باری آئی۔ برجستہ غالب کا شعر لب پر آ گیا:
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
وہی روایتی دلیل کہ انتخابات میں ٹکٹ جیتنے والے امیدوار کو ہی دیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر خواتین کو امیدوار بنایا تو ووٹر انہیں سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیں گے۔حتیٰ کہ وہ سیاسی جماعتیں جن کی سربراہی خواتین کر رہی ہیں، بھی خواتین کارکنان کو انتخابات کے وقت نظر انداز کر دیتی ہیں۔ جس سے قانون سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت بہت کم ہوتی ہے۔
فی الوقت لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں خواتین کی نمائندگی صرف 14 فیصد ہے۔543 اراکین والے ایوان میں صرف 78 خواتین ہیں۔ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا جہاں براہ راست ووٹنگ نہیں ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کے لیے خواتین کو بطور امیدار نامزد کرنا نسبتاً آسان ہے، میں ان کی نمائندگی اور بھی کمزور ہے۔ 250 ممبران والے اس ایوان میں صرف 27 خواتین یعنی بس 9.14 فیصد ہیں۔
فی الوقت جن پانچ صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں، ان میں مغربی بنگال میں مقامی حکمران آل انڈیا ترنمول کانگریس کا کانٹے کا مقابلہ مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کے ساتھ ہے۔ ترنمول کانگریس کی صدر اور صوبہ کی وزیر اعلیٰ ایک خاتون ممتا بنرجی ہیں۔ مگر ان کی اپنی پارٹی کا حال یہ ہے کہ انہوں نے ان انتخابات میں کل 294 امیدوارں کو ٹکٹ دیے ہیں، جن میں صرف 50 خواتین ہیں یعنی بس 17فیصد۔
جنوبی بھارت کے صوبے تامل ناڈو میں بھی انتخابات ہو ر ہے ہیں۔ اس صوبے کی حکمران پارٹی آل انڈیا انًا ڈی ایم کے اپنی مرحوم سربراہ جے جیہ للیتا کے سائے میں انتخاب لڑ رہی ہے۔ وہ اس صوبے کی نہایت ہی مضبوط رہنما تصور کی جاتی تھیں، جن کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنے کی کوئی جراٰت نہیں کر سکتا۔اتنی مضبوط اور مقبول لیڈر ہوتے ہوئے بھی وہ انتخابات میں اپنی صنف کی نمائندگی کو بڑھا نہ سکیں۔
پانچ سال قبل ان کی قیادت میں لڑے جانے والے انتخاب میں بھی بس 6 فیصد خواتین ہی اسمبلی میں پہنچ پائی تھی۔235 رکنی صوبائی ایوان میں صرف 20 خواتین ہیں۔ جن میں سے 14 کا تعلق جے للیتا کی پارٹی سے تھا۔ ان کے انتقال کو اب چار سال بیت چکے ہیں۔ ان کی پارٹی ان کے ہی نام پر ووٹ مانگ رہی ہے۔ مگر ان کی پارٹی نے امیدواروں کی جو فہرست جاری کی ہے، اس میں صرف 13 خواتین ہیں۔
اسی طرح شمال مشرقی صوبے آسام میں جہاں حکمران بی جے پی اور کانگریس کے زیر قیادت اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ ہے، خواتین کی نامزدگی برائے نام ہے۔ ابھی تک نامزدگی داخل کرنے والے 223 امیدواروں میں سے صرف 19 خواتین ہیں۔کانگریس نے سشمتا سنگھدیو جیسی قد آور لیڈر کو بھی میدان میں نہیں اتارا۔
یہ وہی سیاسی جماعتیں و لیڈران ہیں، جو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر،قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستوں کی مانگ کر رہے تھے۔ ٹکٹوں کی اس تقسیم سے یہی لگتا ہے کہ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے قدم اٹھانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی ان کی نیت ہی نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی جس کی سربراہی 1998ء سے سونیا گاندھی کر رہی ہیں، نے بھی کبھی خواتین کو ان کی آبادی کے تناسب سے پارٹی یا قانون ساز اداروں میں سیٹیں دینے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی پارٹی مرکز میں دس سال تک برسر اقتدار رہی۔ 2013ء میں سونیا گاندھی کو فوربس میگزین نے دنیا کی 50 بااثر خواتین میں شامل کیا تھا۔ جب وہ لوک سبھا میں ایوان کی قائد تھیں، ان کی پارٹی کے منتخب خواتین ممبران کی تعداد صرف 25 تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2010ء میں انتہائی شور و غل اور ہنگامے کے درمیان راجیہ سبھا میں خواتین کے لیے قانون ساز اداروں میں 33فیصد نشستیں مختص کرنے کا قانون پاس کیا گیا۔ مگر ایوان میں قطعی اکثریت ہونے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ابھی تک اس بل کو لوک سبھا میں بحث کے لیے لانے اور پاس کروانے کی جراٗت نہیں کر پا رہی ہے۔
پنچائیتوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی سیٹیں مختص کرنے کا قانون 1993ء میں پاس ہونے کے بعد امید بندھی تھی، کہ صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے لیے بھی ایسا ہی قانون متعارف کرایا جائے گا۔ مگر صرف پنچائیتوں تک محدود رکھنے سے خواتین کی نمائندگی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔
کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد پنچ ممبران یا گاؤں کے بااثر افراد ہی اپنی بیویوں کو پنچائیت کا انتخاب لڑاتے ہیں۔ گو کہ وہ منتخب ہو جاتی ہیں، مگر میٹنگوں میں ان کے شوہر ہی جاتے ہیں اور وہی افسران کے ساتھ مل بیٹھ کر فیصلہ کر کے گھر میں بیٹھی اصل پنچ ممبر کا انگوٹھا کاغذ پر لگواتے ہیں۔ ان مردوں کو پردھان پتی کہا جاتا ہے۔ ان کی بیویاں جو پنچائیت کے لیے منتخب ہوئی ہوتی ہیں، باورچی خانہ اور اپنے گھر کے صحن تک ہی محدود رہتی ہیں۔ ہاں جب کسی وزیر وغیرہ کا دورہ ہوتا ہے، تو ان کو بطور پنچائیت ممبر حاضر کیا جاتا ہے۔
کڑوی حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان خود کو ترقی پسند، خواتین کو با اختیار بنانے اور ان کے حقوق کی جنگ میں ساتھ دینے کی باتیں تو کرتے ہیں اور گھنٹوں اس موضوع پر تقریریں بھی کرتے ہیں، مگر جب عملی کام کا وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور اگر مجبوری میں قانون سازی کرنا بھی پڑے، اور ا سے نافذ کرنا بھی پڑے، تو اس کی حالت وہی ہوتی ہے جو پنچائیتوں کی ہوئی ہے۔
برسراقتدار بی جے پی بھی خود کو خواتین کی فلاح و بہبود سے متعلق پارٹی کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔وزیر اعظم اکثر مسلم خواتین کے طلاق کے قانون کو پاس کرنے کا حوالہ دے کر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد ملی ہے۔ مگر جس طرح اس قانون میں شوہر کو جیل میں بند کرنے کی بات کی گئی ہے، اس پر مسلم خواتین کے ایک بڑے حلقے کا ماننا ہے کہ یہ ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ چند سال قبل بی جے پی نے پارٹی کے اندر عہدوں کے لیے ایک تہائی نشستیں محفوظ کرنے کی خاطر آئین میں ترمیم کی تھی۔
مجلس عاملہ میں یقینا 40 خواتین کو شامل کیا گیا، مگر جب ان کو انتخابات میں ٹکٹ دینے کی بات آتی ہے تو مودی اور پارٹی کی عوامی مقبولیت کے باوجود معاملہ گول کر دیا جاتا ہے۔بی جے پی کی حامی تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس میں تو خواتین کی نمائندگی ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے سینیئر لیڈران و پارٹی کے طاقتور ترین آرگنائزنگ سیکرٹری آر ایس ایس سے ہی آتے ہیں۔اگر آر ایس ایس میں ہی خواتین کی نمائندگی نہیں ہے، تو بی جے پی میں اعلیٰ عہدوں پر وہ کیسے براجمان ہو سکتی ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ زادی کے 75سال بعد بھی خواتین کو بااختیار بنانے اور سیاسی اداروں میں ان کو متناسب نمائندگی پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔
لگتا ہے بھارت میں خواتین کو چچا غالب کا شعر یاد کرکے سیاسی لیڈروں کے وعدوں کا عمر بھر انتظار ہی کرنا پڑے گا۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا