خواتین کی باہمی مکالمت اور حمایت پہلے سے زیادہ ضروری
8 مارچ 2017اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ذیلی ادارے ’یو این وومن‘ کا موضوع ملازمتوں کی بدلتی ہوئی فضا میں خواتین کے حقوق کی صورت ِ حال اور سن 2030 تک مرد اور عورت کے درمیان حقوق میں توازن لانا ہے۔ اس منصوبے کو ’یواین وومن ‘ نے ’پلینٹ ففٹی ففٹی 2030‘ کا نام دیا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمومی طور پر دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو جس ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کس حد تک اُن کی کام کی صلاحیتوں کو متاثر کر سکتا ہے اور ایسے میں اپنی خاتون ساتھی کی حمایت اور مدد کتنی ضروری ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی نامور شاعرہ اور دانشور خاتون کشور ناہید نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے ایک خصوصی گفتگو میں کہا کہ جس تیزی سے زمانہ بدل رہا ہے اُس میں کیا عورت اور کیا مرد ہر دو اصناف کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے، تاہم بعض طبقات میں آج بھی یہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ عورت ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔ اور اسی لیے غیرت کے نام پر قتل اور کمسن بچیوں کے عمر رسیدہ افراد سے شادیوں کے واقعات آئے دن سننے کو ملتے ہیں۔
کشور ناہید کا کہنا تھا کہ آج بھی دفاتر میں مردوں کی جانب سے اُن کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کے بارے میں اکثر اوقات یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ اُن صلاحیتوں کی مالک نہیں، جن سے اُن کے ساتھی مرد حضرات مالا مال ہیں۔ لیکن اگر ملازمت کی جگہ پر کام کرنے والی خواتین اس رویے کے خلاف متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو ان سماجی رویوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
کشور ناہید نے کہا،’’خواتین اگر ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو نہ صرف دفتری فضا کو اپنے حق میں بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی وہ تبدیلی لا سکتی ہیں جو کوئی اور نہیں لا سکتا۔‘‘
معروف ڈرامہ نگار خاتون سیما غزل نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر’ یو این وومن‘ کے امسالہ موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ خواتین معاشرے میں ہر سطح پر اپنا مقام بنا رہی ہیں تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت کو آزادی کے نام کا لالی پاپ تھما کر اسے دُہری ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔
سیما غزل نے کہا کہ جس طرح چودہ سو سال پہلے بیٹی کو پیدا ہوتے ہی دفنا دیا جاتا تھا، دنیا کے مختلف سماجوں میں عورت آج بھی روایات میں، خواہشات میں اور اپنے بیڈ روم میں دفنائی جا رہی ہے، صرف طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔
سیما غزل کا کہنا تھا کہ آج پہلے سے کہیں زیادہ اِس بات کی ضرورت ہے کہ خواتین منظم ہو کر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ معاشی اور سماجی سطح پر مضبوط خواتین محروم طبقے کی خواتین کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور اُنہیں مستحکم ہونے میں مدد دیں۔
غزل کی رائے میں جو بات ایک خاتون اپنے شوہر، باپ یا بھائی سے نہیں کہہ سکتی وہ اپنی ماں، بہن اور سہیلی سے کہہ سکتی ہے، کیونکہ پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے میں عورت کا ایک بڑا مسئلہ کیتھارسس ہے۔ اس تناظر میں ایک عورت کی دوسری عورت سے مکالمت بہت اہم ہے۔
معروف شاعرہ شاہدہ حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اپنا موقف یوں بیان کیا،’’میں سمجھتی ہوں کہ خواہ وہ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین ہوں یا اپنا بزنس چلانے والی خواتین یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہوں، اُن میں نہ صرف اپنے حقوق کے حوالے سے بلکہ دوسری عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے بھی شعور کی سطح بہت بلند ہوئی ہے۔ اور ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے مدد اور ہمدردی کے جذبات اجاگر ہو رہے ہیں۔ اور یہی وہ موڑ ہے جہاں سے کسی بھی سماج میں عورت کے معاشی اور جذباتی استحکام کا دور شروع ہوتا ہے۔‘‘
شاہدہ حسن کا کہنا تھا کہ اب یہ فقرہ کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہے پرانا ہو چکا ہے بلکہ اب یہ کہنا بجا ہو گا کہ، ’’ ہر کامیاب عورت کے پیچھے ایک دوسری کامیاب عورت کا ہاتھ ہے۔‘‘
شاہدہ حسن نے عورت کے استحصال کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ چاہے مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ عورت کے استحصال کی صورتیں جدا جدا ہیں۔ عورت کو آج بھی بیچا جارہا ہے، خریدا جا رہا ہے، بانٹا جا رہا ہے لیکن اس کے باجود جہاں جہاں عورتوں نے ایک دوسرے کو سہارا دیا ہے وہاں موسم بدل چکے ہیں اور امید ہو چلی ہے کہ اگر خواتین ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلیں گی تو یہ معاشرہ ایک دن ضرور بدلے گا۔