خواتین کی برابری صرف ووٹوں تک محدود کیوں
27 ستمبر 2020بالفرض گاڑی کے ایک پہیے کی مناسب دیکھ بھال کی جائے اور ایک کا خیال نہ رکھا جائے تو کیا گاڑی کا توازن ٹھیک رہ سکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں! ایسا ہی ملک اور معاشرے میں بھی ہوتا ہے۔ ایک فرد کو نظر انداز کرنے سے پورا نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں بد قسمتی سے یہ گاڑی ایک پہیے پر چلانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے منزل مقصود تک پہنچے کی بجائے حادثات رونما ہو رہے ہیں۔
مگر روایتی سوچ اور طریقہ کار سے اسے دھکا دیا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم طویل عرصے سے ایک روایتی سوچ اور فرسودہ روایات کے اسیر ہیں، جس سے نکلنے کی کوشش بلکہ خواہش ہی ہم نہیں کرتے۔ بلکہ'آ بیل مجھے مار‘ کے مصداق اپنے لیے خود ہی مسائل پیدا کرتے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کی گاڑی بھی بغیر کسی منصوبہ بندی اور غور و فکر کے چل رہی ہے۔ یہاں مردوں اور خواتین کی آبادی تقریباﹰ برابر ہے مگر دونوں کے حقوق میں فرق بہت نمایاں ہے۔ نصف آبادی کو نظر انداز کر کے دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس بات کا احساس ہوا کہ پاکستان میں بظاہر تو حق رائے دہی مرد و خواتین کو برابر حاصل ہے، لیکن عملاﹰ ایسا نہیں۔ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد مردوں سے کئی گنا کم ہے۔ لہذا ووٹرز کی تعداد برابر کرنے اور اس میں موجود فرق کو ختم کرنے کے لیے خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 11 کروڑ 23 لاکھ 90 ہزار ہے، جب کہ مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان فرق ایک کروڑ 27 لاکھ 20 ہزار ہے۔
نظر دوڑاتے ہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں حق رائے دہی میں صنفی برابری کے اعداد و شمار پر، جہاں سے میں خود بھی تعلق رکھتی ہوں، تو صورتحال مایوس کن ہی ہے۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 89 لاکھ 50 ہزار ہے جن میں ایک کروڑ 8 لاکھ 10 ہزار (یعنی 57.08 فیصد) مرد اور 81 لاکھ 30 ہزار (42.92 فیصد) خواتین ہیں ۔ اس طرح مرد اور خواتین رجسٹرڈ ووٹوں میں فرق 26 لاکھ 80 ہزار ہے۔
الیکشن کمیشن نے یہ صنفی تفاوت ختم کرنے کے لیے سن 2017 میں ایکٹ میں ترمیم بھی کی اور خواتین کو آگے لانے کے لیے اقدامات کیے، جس کی شق 206 کے مطابق خواتین کو 5 فیصد جنرل نشستوں پر پارٹی ٹکٹ دینا لازمی قرار دیا گیا اور شق 9 میں کہا گیا کہ جس حلقہ میں خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم ہوں تو وہاں انتخابات دوبارہ کرائے جائیں گے۔ اس فیصلے کی وجہ سے خواتین کو کم از کم اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے اور اپنی ہی صنف کے لیے آواز اٹھانے کا موقع مل گیا، جو بہت بڑی پیش رفت تھی۔ یوں سن 2018 کے انتخابات میں بہت سی خواتین نے جنرل نشستوں پر مقابلہ کیا اور مخصوص نشستوں سے جنرل نشستوں پر خواتین سامنے آئیں، یوں خواتین کے لیے ایک راستہ ضرور بن گیا۔
صنفی فرق کا سامنا خواتین کو صرف ووٹ کے استعمال میں ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا میں ہر شعبے میں انہیں صنفی امتیاز کا سامنا ہے۔ تعلیم کا شعبہ لے لیں، جہاں ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 18 لاکھ سکول نہ جانے والے بچوں میں 64 فیصد بچیاں ہیں۔ اس طرح لڑکیوں کی بڑی تعداد بنیادی تعلیم سے ہی محروم ہے۔
یہی حالت صحت کی بھی ہے۔ ہر سال نہ جانے کتنی خواتین بنیادی صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ وراثت میں حصہ دینے کی بات کریں، تب بھی یہی صنفی فرق نظر آتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 18 سال سے کم عمر کی 21 فیصد لڑکیاں کم عمری کی شادی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، جس میں 28 فیصد خیبر پختونخوا میں ہیں۔
ہر ہر مقام پر بنیادی انسانی حقوق میں ہمارے ہاں صنفی فرق واضح نظر آتا ہے۔ دفاتر ہوں، کھیت کھلیان، کارخانے یا دیگر شعبے، خواتین کا استحصال جاری ہے۔ اس لیے سن 2018 میں ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل جینڈر انڈیکس میں پاکستان کو صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بد ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔
مگر دیر آید درست آید الیکشن کمیشن ہی سہی، کسی کو تو صنفی مساوات کا احساس ہوا۔ صوبے میں خواتین ووٹرز کو مرد ووٹرز کے برابر لانا ایک اچھا اقدام ہے۔ اس طرح سے خواتین میں اپنے حقوق کے بارے میں شعور بیدار ہوگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ ان کے ووٹ کا استعمال بھی ان کی مرضی اور ان کے حقوق کے لیے ہو نہ کہ صرف ایک پارٹی کو کامیاب کرنے اور مخصوص مفادات کے لیے۔
برابری اس طرح ہو کہ خواتین کو تعلیم، صحت، وراثت میں حصہ اور شادی میں اپنی مرضی اور اپنے لیے آواز بلند کرنے کا اختیار مل سکے، اور ان کے لیے بنائے گئے قوانین کو سنجیدہ لیا جائے۔
ملک کی یہ نصف آبادی اس ملک کا اثاثہ اور طاقت ہے۔ عورت کی خود مختاری، نمائندگی اور فیصلہ سازی ہی اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
بابائے قوم محمد علی جناح کا ایک مشہور قول ہے، ''کوئی بھی قوم عظمت کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک کہ اس کی عورتیں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نہ ہوں۔‘‘
لہذا اس بات کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی کو سیاسی قیادت، معاشی فیصلہ سازی اور انتظامی نمائندگی میں یکساں مواقع میسر ہوں۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ بابائے قوم کے اس قول کا ہی بھرم رکھ لیں۔