خواتین کی سکیورٹی، تیونس نے امارات کی پروازیں معطل کر دیں
25 دسمبر 2017تیونس کی طرف سے یہ اعلان متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کے دو دن بعد سامنے آیا ہے، جس میں تیونس کی خواتین پر اس ملک کی حدود سے پرواز کرنے یا پھر ٹرانزٹ فلائٹ لینے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کے بعد تیونس بھر کے عوام نے غصے کا اظہار کیا ہے۔ تیونس کے میڈیا، سوشل میڈیا، عوامی تنظمیوں اور سیاست دانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس اقدام کا ’سخت انداز‘ میں جواب دیا جائے۔
تیونس کی وزارت ٹرانسپورٹ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’امارات کی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد کیا جائے گا، جب تک ایئرلائن بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے مطابق آپریٹ کرنے کے لیے کوئی حل تلاش نہیں کر لیتی۔‘‘ امارات ایئر لائنز کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے ایک بیان میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’تیونس سے ملنے والی ہدایات کے مطابق پیر سے تیونس کے لیے پروازیں بند کی جا رہی ہیں۔‘‘
تیونس کی کئی خواتین کا کہنا ہے کہ امارات ایئر لائنز کی وجہ سے ان کا متعدد خلیجی ممالک میں جانے کا سفری پلان متاثر ہوا ہے جبکہ ان میں سے کئی ایک کو اپنے ویزے کی دوبارہ جانچ پڑتال کروانے کا بھی کہا گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور تیونس کے مابین کئی وجوہات کی بنیاد پر تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں لیکن حالیہ اقدام کی وجہ سے ان میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے۔ سن دو ہزار گیارہ کے دوران تیونس میں ’عرب بہار‘ کے حکومت مخالف ہونے والے عوامی مظاہروں کے دوران متحدہ عرب امارات نے عوامی مظاہروں اور جمہوری منتقلی کی مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے مابین لیبیا کے حوالے سے بھی تضادات پائے جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات لیبیا میں مغربی حمایت یافتہ جنرل حفتر کو فوجی اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے جبکہ لیبیا کا ہمسایہ ملک تیونس اس پالیسی کا مخالف ہے۔
دریں اثناء متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم نے اپنے تیونس کے بھائیوں سے رابطہ کیا ہے اور انہیں سکیورٹی کی وجہ سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور طریقہ ء کار سے آگاہ کیا ہے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’ ہمیں گمراہ کن کوششوں سے بچنا چاہیے۔ تیونس کی خواتین ہمارے لیے محترم ہیں اور ہم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘ دوسری جانب اس وضاحت کے باوجود تیونس میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’امتیازی اور نسل پرستانہ‘ قرار دیا ہے۔