خواتین کے حقوق: بہترین علاقائی مثال نیپال
9 جولائی 2011کٹھمنڈو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ بات عالمی ادارے کی ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے جس کا عنوان ہے، ’دنیا کی خواتین کے لیے ترقی: انصاف کی تلاش میں۔‘ اس رپورٹ کے مطابق ہمالیہ کی سابقہ ہندو بادشاہت اور نئی جمہوریہ نیپال اور جنوبی ایشیا کی ایک اور چھوٹی سی بادشاہت بھوٹان دو ایسے ملک ہیں، جو اپنے ہاں عام شہریوں کی طرف سے ان کی ازدواجی زندگی میں تشدد کو واضح طور پر باقاعدہ جرم قرار دے چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون یا سارک کی رکن ریاستوں کی تعداد یوں تو سات ہے، جن میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں، تاہم نیپال اور بھوٹان وہ واحد مثالیں ہیں، جہاں خواتین پر گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے اس بارے میں متاثر کن قانون سازی بھی کی گئی ہے۔
ابھی حال ہی میں نئی دہلی میں جاری کی گئی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو انصاف کی فراہمی اور ان کی ملکی عدلیہ تک رسائی کی سب سے اہم بنیاد یہ ہے کہ متعلقہ ریاست انہیں ایک ایسا قانونی اور آئینی ڈھانچہ مہیا کرے، جو ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہو۔
رپورٹ کے مطابق اس بارے میں نیپال کی مثال یہ واضح کرتی ہے کہ قوانین اگر مساوی بنیادوں پر تیار کیے جائیں، تو وہ معاشرے میں نئی اقدار کے ظہور میں آنے کے ضامن بننے کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر نئی تبدیلیوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اس رپورٹ میں نیپال ہی میں ان قانونی ضمانتوں کو بھی سراہا گیا ہے، جن کے تحت پبلک سیکٹر میں نیپالی خواتین کو کم از کم بھی ایک تہائی نمائندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں عالمی ادارے کی اس دستاویز میں نیپال کا موازنہ ہمسایہ ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے کیا گیا ہے، جہاں نئی دہلی کی ملکی پارلیمان میں خواتین کو حاصل نمائندگی کا موجودہ تناسب صرف 11 فیصد بنتا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف توقیر