خود کش حملوں کا منصوبہ ساز، افغان آرمی افسر گرفتار
30 جولائی 2011افغان دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی خفیہ ادارے کی طرف سے آج ہفتے کے روز بتایا گیا کہ ملزم کا نام گل محمد ہے اور اس نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی درستگی کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔
فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی NDS نامی خفیہ ادارے کے ترجمان لطف اللہ مشعل نے صحافیوں کو بتایا کہ اس ایجنسی کے اہلکاروں نے گل محمد نامی جس نیشنل آرمی افسر کو حراست میں لیا ہے، وہ کابل میں خود کش حملوں سمیت مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں کے منصوبے بنا رہا تھا۔
لطف اللہ مشعل کے بقول گل محمد، جس کے ملکی فوج میں عہدے کی کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں، کابل شہر میں طالبان کے گروپ کا ایک سرکردہ رکن ہے۔ ملزم پر افغان دارالحکومت کے تین مختلف علاقوں میں ملکی سکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی فوجی دستوں پر حملوں کی تیاری کا الزام ہے۔
یہ تینوں علاقے کابل شہر کے ایسے حصے ہیں، جہاں ملکی اور غیر ملکی فوجی دستوں کے کئی اہم مراکز قائم ہیں۔ ان میں سے ایک علاقہ بہت سخت حفاظتی انتظامات والا کابل شہر کا وہ حصہ بھی ہے، جہاں بین الاقوامی حفاظتی فوج آئی سیف کے ہیڈ کوارٹرز کے علاوہ افغان وزارت دفاع کے مرکزی دفاتر بھی ہیں۔
افغانستان میں صدر حامد کرزئی کی حکومت کو ملکی سکیورٹی فورسز میں طالبان عناصر کی موجودگی کے انتہائی سنجیدہ مسئلے کا سامنا ہے اور اس تناظر میں کابل میں کیے جانے والے متعدد بڑے خونریز حملوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک حملہ اس سال مئی میں کابل کے ملٹری ہسپتال میں کیا گیا تھا، جس میں میڈیکل کے چھ طلبا ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ ایک ایسے خود کش عسکریت پسند نے کیا تھا، جو سکیورٹی دستوں کی یونیفارم پہنے ہوئے تھا۔
اس حملے کے بعد طالبان نے اپنے ایک بیان میں اس امر کی تردید کی تھی کہ کابل ملٹری ہسپتال پر حملہ ان کے کسی رکن نے کیا تھا۔ لیکن طالبان باغیوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عسکری مقاصد کے تحت اپنے بیانات میں اصل حقائق میں اکثر رد و بدل کرتے رہتے ہیں۔
افغان خفیہ ادارے NDS نے گل محمد نامی نیشنل آرمی کے جس افسر اور طالبان کے رکن کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے، اس کے بارے میں کابل میں ملکی وزارت دفاع نے کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔ وزارت دفاع کے ترجمان جنرل ظاہر عظیمی نے صرف اتنا کہا کہ انہیں گرفتار کیے جانے والے فوجی افسر کے عہدے اور اس کے حراست میں لیے جانے کے وقت کا کوئی علم نہیں، لیکن جو حقائق قومی سلامتی کے ڈائریکٹوریٹ نے جاری کیے ہیں، وہ غلط نہیں ہو سکتے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ