خیبر پختونخوا میں دو حملے، چھ فوجی اور تین نمازی ہلاک
22 اکتوبر 2010صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے نواحی علاقے کی ایک مسجد میں یہ دھماکہ جمعے کی نماز کے وقت ہوا، جس میں کم از کم تین نمازی جاں بحق ہو گئے۔ شہری انتظامیہ نے بتایا کہ اس حملے میں سات افراد زخمی ہیں۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے ایک قافلے کو قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ فوجی حکام کے مطابق ایک ہفتے کے دوران فوج پر ہونے والا یہ تیسرا حملہ ہے۔ دہشت گرد گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی فوج کو وقفے وقفے سے نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن سیلاب کے بعد میں امدادی سرگرمیوں کے دوران فوجی اہلکاروں پر حملوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی۔
اورکزئی ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ عبدالقادر نے بتایا کہ فرنٹیئر کور کا ایک قافلہ معمول کی ایک گشت پر تھا اور یخ کنڈاؤ کے علاقے میں اس پر خود کش حملہ کیا گیا۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں کچھ عرصہ قبل فوج نے ایک آپریشن کے دوران طالبان عسکریت پسندوں کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ عبدالقادر نے مزید بتایا کہ اس حملے میں تین فوجی زخمی بھی ہیں۔ علاقے کوگھیرے میں لے کر شدت پسندوں کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک کرنل بھی شامل ہے۔
پاکستانی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق 2002ء سے رواں برس اپریل تک دہشت گردوں کے خلاف مختلف کارروائیوں میں فوج اور نیم فوجی دستوں کے2,412 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 7 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں گزشتہ تین سالوں کے دوران 3 ہزار 7سو سے زائد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں ہفتے منگل کے روز جنوبی وزیرستان میں ایک حملے میں تین فوجی اہلکار جبکہ بدھ کے روز قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں اسی نوعیت کے ایک حملے میں مزید تین اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم ساتھی ہونے کے باوجود پاکستان کے کردار کو مختلف مواقع پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن کبھی کبھار اس حوالے سے تعریف بھی کی گئی ہے۔ پاکستانی فوج واشنگٹن حکام کے ان الزامات کو ہمیشہ سے ہی رد کرتی آئی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کر رہا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی