خیبر پختونخوا کی حکومت افغان مہاجرین سے نالاں
8 جولائی 2013اقوام متحدہ کے مہاجرین کا ادارہ افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی میں تعاون کر رہاہے۔ انہیں پانچ سو ڈالر نقد اور اشیاء ضرورت فراہم کی جاتی ہیں تاہم صوبہ خیبر پختونخوا سے افغان مہاجرین کی اکثریت واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔ یو این ایچ سی آر کے تحت مراعات لے کر جانے والوں میں سے بعض دیگر راستوں سے واپس پاکستان آجاتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر افغان مہاجرین آباد ہیں جو نہ صرف ہر شعبے میں کاروبار کررہے ہیں بلکہ کئی نے یہاں جائیدادیں بھی خرید رکھی ہیں۔
پشاور میں کاروبار کرنے والے افغان جلال بایارکا اپنے ہم وطنوں سے متعلق کہنا تھا، ” ان کے بچے یہاں زیر تعلیم ہیں اور وہ یہاں سرمایہ کاری بھی کرچکے ہیں ایسے میں وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتے کیونکہ افغانستان میں نہ تعلیم کی سہولت میسر ہے اور نہ صحت جبکہ بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی لوگ پاکستان آتے ہیں یہاں سے واپس جانے اور افغانستان میں قدم جمانے کے لیے ا نہیں کافی وقت درکار ہوگا‘‘۔
ان کا مزیدکہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ افغانستان میں اب بھی جنگ جاری ہے وہاں آج بھی غیر یقینی کی صورتحال ہے اور اگر اگلے سال افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج نکلتی ہیں تو ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کی سی صورتحال کے خدشات موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر اور پاک افغان بزنس فورم کے ڈائریکٹر ضیاء الحق سرحدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ” افغان مہاجرین یہاں کے ہر کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں چونکہ یہ لوگ ایک پیسہ ٹیکس ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے مقامی تاجر ان کا مقابلہ کرنے سے رہے‘‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر فورم پر حکومت سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح دیگر ممالک میں انہیں کاروبار کرنے کے لیے مخصوص اجازت نامے دیے گئے یا قوانین بنائے گئے یہاں بھی اسی طرح کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’افغانستان کے حالات میں کافی حد تک بہتری آئی ہے تو ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو باعزت طریقے سے اپنے ملک میں بسایا جائے۔“
حال ہی میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر افغان مہاجرین کی پاکستان میں قیام کی مدت میں توسیع کی ہے اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ رجسٹرڈ افغان شہریوں کو تنگ نہ کیا جائے۔ ان کی افغانستان واپسی کی مدت 30 جو ن کو ختم ہوئی تھی تاہم اس بارے میں نئی تاریخ کا اعلان وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں متوقع ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا حکومت نے وفاق کی اس پالیسی پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ایک سال کے اندر تمام رجسٹرڈ مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک جامع پالیسی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ انہیں مزید مہمان بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو ان کے لیے دیگرصوبوں میں بھی کیمپ بنائے جائیں اور انہیں تما صوبوں میں برابر تقسیم کیا جائے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 62 فیصد رجسٹرڈ مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کے42کیمپوں میں سے 29خیبر پختونخوا میں ہیں تاہم 60 فیصد سے زیادہ پناہ گزین کیمپوں سے باہر رہتے ہیں۔