1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن، اقلیتی نشستوں کا مسئلہ

فرید اللہ خان، پشاور21 مئی 2015

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں الیکشن کمیشن نے تیس مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی اکتالیس ہزار سے زیادہ نشستوں کے لیے چوراسی ہزار سے زیادہ اُمیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FTrl
Pakistan Frauen in Burka
’’اقلیتی نشستوں سمیت خواتین، جنرل اور نوجوانوں کی نشستوں پر پانچ سو انتالیس امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔‘‘تصویر: AFP/Getty Images/A. Majeed

الیکشن کمیشن کی اس فہرست کے مطابق خیبرپختونخوا میں اقلیتوں کی تین ہزار تین سو سے زیادہ نشستیں ہیں لیکن ان نشستوں پر صرف تین سو انچاس امیدوار سامنے آئے ہیں، جس سے صوبے میں ڈھائی ہزار سے زیادہ اقلیتی نشستیں خالی رہ جائیں گی۔

سابق نائب ناظم سلیم خان کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال اس طرح کی رہی تو صوبے کی اقلیتی برادری کو نمائندگی میں مشکل کا سامنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ کونسل کی کابینہ نامکمل ہونے سے سوالات اٹھیں گے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن کی تیاریوں کے حوالے سے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، نہ تو کوئی تربیتی پروگرام منعقد کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی گائیڈ لائن دی گئی۔

خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ان کے لیے پھر بھی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ جب اس سلسلے میں پشاور کے سابق ناظم اسرار اللہ خان ایڈوکیٹ سے بات کی گئی تو اُنہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’پہلے یہ منصوبہ تھا کہ جن علاقوں میں اقلیتیں نہیں یا ان کی تعداد کم ہے، وہاں کی نشست جنرل نشست میں تبدیل کر دی جائے گی کیونکہ جنرل نشست پر منتخب ہونے والا اقلیتی برادری کے حقوق کی بھی پاسداری کرے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں جہاں بھی اقلیتیں ہیں، وہاں اُمیدوار سامنے آئے ہیں اور وہ بڑھ چڑھ کر انتخابی سرگرمیوں میں حصہ بھی لے رہے ہیں:’’اقلیتی نشستوں سمیت خواتین، جنرل اور نوجوانوں کی نشستوں پر پانچ سو انتالیس امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔‘‘

دوسری جانب جب اقلیتی برادری کے اُمیدواروں کی عدم دلچسپی کے بارے میں ایک نوجوان جیکسن سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا:’’ہماری برادری سے اگر کوئی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہو جائے یا پھر ناظم وغیر بن جائے تو وہ صرف اپنے لوگوں کی خدمت تک محدود رہتا ہے، برادری کے اجتماعی مسائل پر توجہ نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت صوبائی اور قومی اسمبلی میں اقلیتی نشستوں پر کئی منتخب لوگ بیھٹے ہیں، ہمارے سکالرشپس کا مسئلہ ہے، بعض علاقوں میں ڈومیسائل کا مسئلہ ہے، کہیں پر میرج رجسٹریشن کا مسئلہ ہے، کہیں عبادت خانوں کی سکیورٹی کا مسئلہ ہے، یہ صوبے کی تمام اقلیتوں کے اجتماعی مسائل ہیں لیکن ہمارے نمائندے اس پر کوئی بات نہیں کرتے۔ اب صوبائی اقلیتی اُمور کے وزیر کو دیکھیں، ان کی توجہ صرف اپنے علاقے پر ہے باقی کسی کے مسائل سننے کے لیے نہیں ہیں، ایسے میں ہمارے لیے مسلمان ہی بہتر ہیں، وہ ان مسائل پر کم از کم ایوان میں بات تو کرتے ہیں‘۔

Parlamentswahlen in Pakistan
’’جہاں جہاں اقلیتی برادری کا ووٹ نہیں ہے، وہاں یہ نشست خالی ہی رہے گی‘‘تصویر: AP

اقلیتیوں کی نشستوں کو جنرل نشستوں میں تبدیل کرنے کے حوالے سے جب صوبائی وزیر بلدیات عنایت اللہ خان سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا:’’ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ جہاں اقلیتی ووٹ نہیں ہے، وہاں عوامی نمائندے کی نشست خالی رہےگی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر جہاں جہاں انتخابات ہوتے ہیں، وہاں ہر پارٹی کا اقلیتی ونگ موجود ہے اور ہر پارٹی کے منشور میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے نکات موجود ہیں، اس لیے اقلیتوں کے حقوق دبانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ’آپ دیکھیں کہ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کا بھی ایک اقلیتی ونگ ہے، وہ انتخابات میں متحرک ہیں اور کئی لوگ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہیں لیکن جہاں اقلیتی برادری کا ووٹ نہیں ہے، وہاں یہ نشست خالی ہی رہے گی‘۔

خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں ایک بڑی تعداد میں سکھ، مسیحی، ہندو اور دیگر اقلیتیں رہائش پذیر ہیں۔ جہاں صوبائی اسمبلی میں ان کی نمائندگی ہے، وہاں بلدیاتی اداروں میں بھی انہیں نمائندگی دی گئی ہے تاکہ ان کے اپنے لوگ ان کے مسائل کو حکومتی اداروں کے نوٹس میں لا کر انہیں حل کرانےکے لیے اقدامات کر سکیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید