خیبرپختونخواہ میں عسکریت پسندی: نفسیاتی امراض میں اضافہ
8 جون 2010ان ہی میں سے ایک رفعت رمضان بھی ہیں۔ جو اپنے دوست نعمان کی کئی ہفتوں پہلے خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد سے خوفناک ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ رمضان کا کہنا ہے کہ نعمان نے حال ہی میں اُس سے کہا تھا کہ خواب بہت ہی حیسن ہوتے ہیں اور یہ کہ اُن کے خواب یقیناً شرمندہ تعبیرہوں گے۔ لیکن اس سے پہلے کہ نعمان کے یہ خواب حقیقت کا روپ دھارتے، موت کے بے رحم پنجوں نے اُسے آن جکڑا۔
رمضان کے مطابق نعمان موٹر سائیکل پر کہیں جارہا تھا کہ رستے میں ایک آدمی نے اُس سے پولیس اسٹیشن تک جانے کی لفٹ مانگی اور جسیے ہی وہ پولیس اسٹیشن کے سامنے پہنچا، اُس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑالیا۔ نعمان سمیت دس افراد اس دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ رمضان کو اب خوف ہے کہ وہ بھی خیبر پختونخواہ میں ہونے والے تشدد کی نذر ہو جائے گا۔
طالبان عسکریت پسند گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اِس لڑائی میں عسکریت پسندوں نے فوجیوں کے علاوہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ پولیس اسٹیشنوں سے لے کر پر ہجوم گلیاں تک اِن عسکریت پسندوں کے خودکش حملوں کا ہدف رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک والی بال کے میچ پر بھی ان شدت پسندوں نے حملہ کیا ہے۔ شدت پسندوں کے حملوں اور فوجی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کے بے شمار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ماہرِعمرانیات اور طب کے پیشے سے وابستہ افراد اِن پر تشدد واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل پرمتفکرہیں۔ نفسیات دان نجم یونس نے اس صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ بے چینی، خوف اور اضطراب کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ ٹی وی چینلزپر نشر ہونے والی ایک چھوٹی سی خبر بھی لوگوں میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دیتی ہے اور وہ ماہرینِ نفسیات کے پاس جاکر نیند کی گولیاں طلب کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ذہنی امراض کے حوالے سے تصورات تبدیل ہوئے ہیں۔ اِسی لئے لوگ آسانی سے ماہرینِ نفسیات کے پاس چلے جاتے ہیں۔ تاہم یہ رجحان شہری علاقوں میں زیادہ عام ہے۔
جوعلاقے تشدد کی لپیٹ میں ہیں وہاں ایسے ادارے نہیں جو نفسیاتی بیماریوں یا مسائل کے شکار افراد کو صلاح ومشورے دے سکیں یا پھر ان کا علاج کر سکیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ عسکریت پسندی اور تشدد سے متاثرہ علاقوں کے مکین نفسیاتی امراض کےعلاج کے لئے کئی کئی میلوں کا سفر طے کر کے پشاور یا دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
شہروں میں قائم ایسے ہی ہسپتالوں میں سے ایک سرحد ہسپتال برائے نفسیاتی امراض ہے۔ یہ ہسپتال اُس جیل کے پاس قائم ہے، جہاں کئی خطرناک مجرم اور عسکریت پسند اپنے مقدمات کی کارروائی کے شروع ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں نفسیاتی امراض کے علاج کا یہ واحد مناسب سرکاری ادارہ ہے۔
اس ہسپتال سے وابستہ ماہرِ نفسیات ڈاکڑ محمد طارق کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اُنہیں ایک دِن میں 100 کے قریب مریضوں کا معائنہ کرنا پڑتا ہے۔ اِس سرکاری ہسپتال میں فنڈز کی کمی ہے اور اِسی لئے ڈاکڑ طارق کے پاس کوئی کمپیوٹر بھی نہیں جس میں وہ ہزاروں آنے والے مریضوں کے ریکارڈ کو جدید طریقے سے محفوظ کر سکیں۔
ڈاکڑ طارق کا کہنا ہے کہ تشدد اور عسکریت پسندی کی وجہ سے لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے ہیں جب کہ اُن کے کاروبار بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اِن عوامل نے لوگوں کو کئی نفسیاتی مسائل سے دو چارکردیا ہے۔ ڈاکڑ طارق کے مطابق روزانہ 15 سے 20 مریض اُن کے پاس اُن علاقوں سے آتے ہیں، جو تشدد یا عسکریت پسندی کی لپیٹ میں ہیں۔ ڈاکڑ طارق کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کا علاج کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جو پہلے ہی سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں اور پھر تشدد کی وجہ سے اُن پر اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں۔
اس ہسپتال میں آنے والا ایک محمد اختیاربھی ہے، جس کے بیٹے کا ذہنی توازن صیح نہیں ہے۔ اختیار کے بیٹے کے علاج کے لئے ایک فلاحی تنظیم اُس کی مدد کر رہی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی بیماری کا بوجھ لئے پہلے ہی سے گھوم رہا تھا کہ عسکریت پسندی کی وجہ سے جنم لینے والے مسائل نے اُس کی مشکلات میں مذید اضافہ کردیا ہے۔
اختیار کا کہنا ہے کہ اُس کے بیٹے کی عجیب و غریب کیفیت رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں " بعض اوقات میرا بیٹا طالبان اور آرمی سے خوفزدہ نظرآتا ہے جب کہ کبھی کبھی اُسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ طالبان یا آرمی کا کمانڈر ہے۔"
اختیار کی مشکلات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ عسکریت پسندوں اور آرمی کے درمیان جنگ کے دوران طالبان اُس کے مکئی کے کھیتوں میں چھپ گئے تھے اور پھر فوج نے اُسے مجبور کیا کہ وہ ان کھیتوں کو کاٹ دے ۔ اب اُس کے پاس آمدنی تک کے ذرائع موجود نہیں ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نفسیاتی امراض کے شکار افراد کو گھر والوں کے جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ اِس وقت اپنے گھر والوں سے دور ہیں۔ شمالی وزیرستان کا شہری محمد اقبال دوہری ذہنی کیفیت کا شکار ہے۔ اس کی طبعیت میں کبھی شدید مایوسی آجاتی ہے اور کبھی وہ بے وجہ بہت زیادہ خوشی محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنے چار بچوں سے ملنے کے لئے وزیرستان نہیں جا سکتا کیونکہ اس علاقے میں شدت پسندوں اور فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
رپورٹ: عبدلستار
ادارت: کشور مصطفیٰ