داعش کا شکار بچے، جنہیں دنیا نے بھُلا دیا
30 جولائی 2020انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ گروہ کے مظالم کا شکار ہونے والی یزیدی آبادی آج تک قتل عام، ریپ اور ٹارچر کے خوف سے نہیں نکل سکی۔
ایک تازہ رپورٹ میں ایمنسٹی نے کہا کہ حالیہ برسوں میں اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے قبضے سے آزاد کرائے جانے والے لگ بھگ دو ہزار یزیدی بچوں کی فلاح و بہود کو بظاہر نظر انداز کر دیا گیا اور وہ آج بھی نفسیاتی اور جسمانی دباؤ کا شکار ہیں۔
ان بچوں پر ان کی مادری کرُد زبان بولنے پر پابندی لگ دی گئی تھی اور انہیں صرف عربی بولنے کی اجازت تھی۔
یزیدی برادری شمالی عراق میں مقیم ایک لسانی اور مذہبی اقلیت ہے۔
2014ء میں اپنی پیش قدمی کے دوران داعش نے انہیں مرتد قرار دے کر ان پر چڑھائی کی اور لوگوں کو زبردستی مسلمان کیا۔ داعش کے خوف سے یزیدی خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے۔
ہزاروں لوگوں کو پکڑ کر مار دیا گیا جبکہ کوئی 7000 یزیدی خواتین اور بچیوں کو غلام بنا کر ان کا ریپ کیا گیا اور ان کی زبردستی شادیاں کرادی گئیں۔
اس منظم جنسی جبر کا شکار بننے والی کئی خواتین حاملہ ہوگئیں اور انہوں نے داعش کے جنگجوؤں کی قید میں بچوں کو جنم دیا۔ بعد میں ان خواتین کی ایک بڑی تعداد جب شام میں داعش کی قید سے آزاد کرائی گئی تو انہیں اپنے بچے وہیں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
اپنی اولادوں سے الگ کی جانے والی ماؤں میں سے ایک حنان نامی خاتون نے کہا، ''ہم میں سے سبھی نے اپنے آپ کو ختم کرنے کا بارے میں سوچا ہے یا اس کی کوشش کی ہے۔‘‘
ایمنسٹی کے مطابق اتنا ظلم سہنے کے بعد یہ خواتین آج اپنے کم سن بچوں کے لیے تڑپتی ہیں۔ تنظیم کا مطالبہ ہے کہ ان خواتین کو ان کے بچوں کے ساتھ ملایا جانا چاہییے۔
ایمنسٹی کے اہلکار میٹ ویلس کے مطابق، ''ان عورتوں کو غلام بنا کر رکھا گیا، ان پر ٹارچر اور جنسی تشدد ہوا۔ انہیں مزید سزا نہیں ملنی چاہییے۔‘‘
ش ج / ا ب ا (اے ایف پی)