’داعش کا ملائیشیا کے وزیر اعظم کے اغوا کا منصوبہ ناکام‘
8 مارچ 2016کوآلالمپور سے منگل آٹھ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ملائیشیا کے نائب وزیر اعظم احمد زاہد حمیدی نے آج بتایا کہ شدت پسند تنظیم داعش کی طرف سے، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا آئی ایس بھی کہلاتی ہے، ملائیشیا میں سربراہ حکومت سمیت متعدد حکومتی ارکان کے اغوا کا یہ منصوبہ گزشتہ برس ناکام بنا دیا گیا تھا۔
احمد زاہد حمیدی نے، جو ملائیشیا کے وزیر داخلہ بھی ہیں، کہا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا ’دولت اسلامیہ‘ کے جنگجوؤں نے اس منصوبے کے تحت ملک کے انتظامی دارالحکومت پتراجایا پر حملوں کا پروگرام بنایا تھا اور اس مقصد کے لیے دھماکا خیز مواد تیار کر کے اس کے استعمال کی باقاعدہ مشقیں بھی کی جا چکی تھیں۔
وزیر داخلہ نے کوآلالمپور میں داعش کی طرف سے ملائیشیا کو لاحق خطرات اور ان کے تدارک کی حکومتی کوششوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیا، ’’30 جنوری 2015ء کو داعش (دولت اسلامیہ) سے وابستہ 13 افراد نے ایک منصوبہ بنایا تھا، جس کے تحت وزیر اعظم نجیب رزاق، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع سمیت متعدد ملکی رہنماؤں کو اغوا کیا جانا تھا۔‘‘
حمیدی نے مزید کہا، ’’یہ عسکریت پسند پتراجایا پر ایک بڑا حملہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے دھماکا خیز مواد تیار کر کے اس کے تجربات بھی کیے تھے۔ اگرچہ ملائیشیا میں داعش کا اپنا کوئی ٹھوس تنظیمی ڈھانچا نہیں ہے تاہم مقامی عسکریت پسندوں نے اس تنظیم کا اثر قبول کیا ہے، اور وہ شام میں آئی ایس کے دہشت گردانہ نیٹ ورک سے احکامات وصول کرتے رہے ہیں۔‘‘
اس بارے میں روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ ملائیشیا ایک ایسا مسلم اکثریتی ملک ہے، جسے اب تک داعش کی طرف سے بڑے اور سلسلے وار حملوں کا سامنا نہیں رہا تاہم اس ایشیائی ملک میں گزشتہ برس جنوری سے اب تک عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں کم از کم 160 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے سات عسکریت پسند ایسے بھی ہیں، جو مبینہ طور پر داعش کے ایک مقامی خفیہ سیل کا حصہ تھے۔
ملائیشین نائب وزیر اعظم حمیدی کے مطابق داعش کے ارکان نے ستمبر 2014ء اور مئی 2015ء کے درمیانی عرصے میں اس ملک کے مختلف حصوں میں چار بڑے حملوں کے منصوبے بنائے تھے، جن کے تحت دارالحکومت کوآلالمپور، پتراجایا اور ریاست کیداہ میں اہم اہداف کو نشانہ بنایا جانا تھا۔ تاہم ملکی پولیس یہ منصوبے ناکام بنا دینے میں کامیاب رہی۔
احمد زاہد حمیدی کے بقول ملزمان کی طرف سے ان کے ممکنہ اہداف کا انتخاب اتنا متنوع تھا کہ ان میں فوجی کیمپوں سے ہتھیار چرانے اور تاوان کے لیے ملکی رہنماؤں کو اغوا کرنے سے لے کر تفریحی مراکز، بدھ مندروں اور ایک شیعہ مسجد تک حملوں کے منصوبے شامل تھے۔