داعش کا نشانہ بننے والوں کی 200 اجتماعی قبریں
6 نومبر 2018اقوام متحدہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان اجتماعی قبروں میں ہزاروں افراد کی باقیات موجود ہیں اور شبہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر شدت پسند سنی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے نشانہ بنائے گئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اجتماعی قبریں جون سے دسمبر 2014ء کے درمیانی عرصے کی ہیں، جب اسلامک اسٹیٹ نے شمالی عراق کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد خود ساختہ خلافت قائم کی تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق اجتماعی قبروں میں خواتین، بچوں، بوڑھے اور معذور افراد کو بھی دفن کیا گیا تھا۔ مدفون افراد میں سلامتی کے عراقی اداروں کے ارکان بھی شامل ہیں۔
اس عالمی ادارے کی جانب سے ماضی میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق صرف عراق میں اسلامک اسٹیٹ نے تقریباً تینتیس ہزار عام شہریوں کی جان لی جبکہ پچپن ہزار سے زائد کو زخمی کیا۔
یہ اجتماعی قبریں چار صوبوں انبار، کرکوک، صلاح الدین اور نینوا میں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ صوبے عراق کے شمال اور مغرب میں شام کی سرحد کے ساتھ واقع ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ کو دسمبر 2017ء میں عراقی فوج نے ایک بڑی فوجی کارروائی کر کے ان علاقوں سے پسپا کیا تھا۔
امریکی اندازوں کے مطابق کل 202 اجتماعی قبریں ہیں، جن میں چھ سے بارہ ہزار افراد کو دفن کیا گیا۔ تاہم ہلاک کیے جانے والوں کی اصل تعداد کا تعین کرنا تقریباً نا ممکن ہے کیونکہ ابھی تک صرف 28 اجتماعی قبریں دریافت کی جا چکی ہیں، جن میں تقریباً ساڑھے بارہ سو لاشیں ملی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان افراد کو منظم انداز میں وسیع پیمانے پر کی جانے والی پرتشدد کارروائیوں کے دوران ہلاک کیا گیا، ’’اس قتل و غارت کو جنگی اور انسانیت سوز جرائم کے ساتھ ساتھ نسل کشی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
اپنے تین سالہ دور میں اسلامک اسٹیٹ نے مقامی آبادی کو خوف و دہشت کا شکار بنائے رکھا اور مخالفت یا تنقید کرنے، حکومت کے ساتھ روابط رکھنے اور جنسی رویوں کی وجہ سے شہریوں کو کھلے عام نشانہ بنایا۔
ابھی تک کی سب سے چھوٹی قرار دی جانے والی اجتماعی قبر سے آٹھ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ موصل میں ایک بڑی قبر سے چار ہزار افراد کی باقیات ملی تھیں۔