داعش کو کابل حملوں کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، صدر بائیڈن
27 اگست 2021جمعرات کے روز کابل کے ہوائی اڈے کے باہر ہونے والے خود کش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 85 ہو گئی ہے۔ ان میں 13 امریکی فوجی شامل ہیں۔ حملوں کے بعد پیدا شدہ صورت حال کے پس منظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی قیادت کو داعش (خراسان) کے خلاف جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی کا حکم دے دیا گیا ہے۔
جمعرات کے روز ایک دھماکا کابل میں حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر ایبے گیٹ پر ہوا جب کہ دوسرا ایک قریبی ہوٹل میں، جن میں کم از کم 85 افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد بڑھ کر 72 ہو گئی ہے۔ ان میں 28 طالبان بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں 13 امریکی فوجی مارے گئے جبکہ 18 امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
داعش سے بدلا لیا جائے گا، بائیڈن
’اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ ذیلی گروپ داعش (خراسان) نے کابل ہوائی اڈے کے باہر کیے گئے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
صدر بائیڈن نے قوم سے خطا ب کرتے ہوئے کہا، ”ہم ان تک پہنچنے کے لیے اپنی مرضی کے راستے تلاش کریں گے۔ ہم انہیں معاف نہیں کریں گے۔ ہم انہیں بھولیں گے نہیں۔ ہم ان کا شکار کریں گے اور ان کو اس کی قیمت چکانا ہو گی۔"
صدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ''یہ بہت مشکل دن رہا ہے۔" انہوں نے ان دھماکوں میں مارے جانے والے امریکیوں کو 'ہیرو‘ قرار دیا اور وائٹ ہاوس اور ملک بھر میں سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا حکم دیا۔
اکتیس اگست کے بعد انخلا کی اجازت نہیں دیں گے، طالبان
صدر بائیڈن نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ داعش کے ان حملوں میں طالبان بھی ملوث ہیں۔ انہوں نے تاہم کہا کہ یہ بات طالبان کے مفاد میں ہو گی کہ وہ داعش (خراسان) کے خلاف کارروائی میں ساتھ دیں، جو دراصل ان کی بھی دشمن ہے۔
انخلا جاری رہے گا
امریکی صدر نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کابل ہوائی اڈے کے باہر حملوں کے باوجود افغانستان سے انخلا کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی شہریوں اور اتحادیوں کے انخلا کے فیصلے پر قائم ہیں اور اسے 31 اگست تک مکمل کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں موجود ملٹری کمانڈروں نے مزید فوج بھیجنے کی سفارش کی تو 'تو میں یقینی طور اس کی اجازت دے دوں گا‘۔
صدر بائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے کو ایک بار پھر درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ 20 سال کے بعد افغانستان میں مزید رکنا امریکی مفاد میں نہیں تھا۔ وہ غیر ضروری طور پر افغانستان میں ایک دن بھی نہیں رہیں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس کے مطابق رواں سال مئی میں امریکی فوج کو افغانستان سے نکلنا تھا جب کہ طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ امریکا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے، اور یہ ذمہ داری انہیں پوری کرنا پڑے گی۔
کابل ہوائی اڈے کا رخ نہ کریں، امریکا اور اتحادی ممالک کا مشورہ
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو ہی ایک بیان میں بتایا کہ 14 اگست کے بعد سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کو افغانستان سے نکالا جاچکا ہے۔ لیکن اب بھی تقریباً ایک ہزار امریکی کابل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکی فوج کے لیے کام کرنے والے ایسے ہزاروں افغان شہری بھی پھنسے ہوئے ہیں جو ملک چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔
جرمن فورسز بحفاظت جرمنی واپس
جرمن وزارت دفاع نے بتایا کہ جرمن شہریوں اور دیگر افراد کے افغانستان سے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے کابل میں تعینات جرمن فوج کے تمام اراکین بحفاظت جرمنی واپس پہنچ گئے ہیں۔
جرمن وزیر دفاع آنےگرَیٹ کرامپ کارین باؤر دیگر جرمن عہدیداروں کے ہمراہ آج جمعے کے روز جرمن فوجیوں سے ملاقات کرنے والی ہیں۔
کابل سے انخلا کے دوران حفاظت کے لیے تقریباً 600 جرمن فوجیوں کو وہاں تعینات کیا گیا تھا۔
طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنی چاہیے، جرمن چانسلر
جرمن وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کابل کی ابتر ہوتی صورت حال کے مدنظر افغانستان سے انخلا کی مدت میں توسیع ممکن نہیں۔
آسٹریلوی فوج بھی کابل سے واپس
آسٹریلوی وزیر دفاع پیٹر ڈیوٹن نے جمعے کے روز کہا کہ کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے سے پہلے ہی آسٹریلوی فوج وہاں سے نکل چکی تھی۔
انہوں نے آسٹریلوی نیوز چینل نیٹ ورک نائن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”میں مطمئن ہوں کہ ہمارے تمام فوجی کابل سے بحفاظت نکل آئے۔ وہ اس وقت متحدہ عرب امارات میں ہیں۔"
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے بھی کہا کہ کابل بم دھماکوں سے قبل ہی ان کے ملک کا آخری طیارہ بھی کابل سے پرواز کر چکا تھا۔ انہوں نے ان حملوں کی شدید مذمت کی۔
ہم افغانستان سے جتنا جلد نکل جائیں اتنا بہتر ہوگا، امریکی صدر
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، سعودی عرب، چین، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، اسپین اور فرانس سمیت کئی ممالک نے کابل میں ان دھماکوں کی مذمت کی ہے۔ صورت حال پر غور کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کا ایک اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
ج ا / م م (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)