داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں جرمنی بھی شریک ہو سکتا ہے
29 نومبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جرمن فوج کے انسپکٹر جنرل فولکر ویکر کے حوالے سے بتایا ہے کہ برلن حکومت رواں برس کے اواخر میں شام میں فوجی تعینات کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ سے اجازت طلب کرنے کی کوشش کرے گی۔ بتایا گیا ہے کہ ان فوجیوں کی تعداد بارہ سو تک ہو سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ موجودہ وقت میں جرمن فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد کسی غیر ملک میں تعینات نہیں ہے۔
فولکر ویکر نے جرمن روزنامے ’بلڈ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’فوجی نکتہ نظر سے طیاروں اور بحری جہازوں کو آپریٹ کرنے کے لیے بارہ سو فوجیوں کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمن فوج کے اعلیٰ ترین عہدے دار فولکر کے مطابق جرمن پارلیمنٹ سے اس مشن کی اجازت ملنے کے بعد فوری طور پر فوجیوں کی تعیناتی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رواں برس کے اواخر تک اس حوالے سے حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔
فولکر ویکر نے البتہ یہ بھی کہا کہ داعش کے خلاف جاری امریکی عسکری اتحاد کی فضائی کارروائیوں میں فی الحال جرمن فوجی شمولیت ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہادیوں کے خلاف عالمی اتحاد میں جرمنی کی جاسوسی اور خفیہ معلومات جمع کرنے کی صلاحیت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مشن کی حتمی تفصیلات ابھی طے کی جانا باقی ہیں۔
پیرس حملوں کے بعد فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے عالمی سطح پر اپیل کی تھی کہ داعش کے خلاف کارروائیوں میں اس ان کی مدد کی جائے۔ دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ جرمنی نے بھی پیرس کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے حال ہی میں فرانسیسی صدر سے اپنی ملاقات میں یہ یقین بھی دلایا تھا کہ داعش کے خلاف عسکری مدد بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی جرمن حکومت نے مالی میں سرگرم جہادیوں کے خلاف جاری عالمی کارروائی میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ساڑھے چھ سو فوجی اس افریقی ملک میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جرمن وزیر دفاع ارسلا فان ڈیئر لاین کے بقول مالی میں جرمن فوجیوں کی تعیناتی کا فیصلہ دراصل وہاں پہلے سے موجود فرانسیسی فوجیوں کو تعاون فراہم کرنے کی غرض سے کیا گیا۔ جرمن فوج وہاں فرانس کی سرپرستی میں فعال بین الاقوامی امن فوجی مشن کو تعاون فراہم کرے گی۔