1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے ’دارالخلافہ‘ الرقہ میں جہادیوں پر شدید حملے

17 جولائی 2017

امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں نے شام میں داعش کے خود ساختہ ’دارالخلافہ‘ الرقہ کے مرکز میں حملے کیے ہیں۔ لڑائی کے باعث عام شہریوں نے اپنی زندگیاں بچانے کے لیے وہاں سے بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/2ggxJ
Syrien Al-Raqqa - Kurdische Kämpfer
تصویر: Reuters/G. Tomasevic

امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز  نے چھ  جون کو داعش کے زیر قبضہ اس اہم علاقے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جنگی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اس طرح اب تک امریکی حمایت یافتہ جنگجو متعدد علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔ امریکا اور اس کی اتحادی فورسز کے مطابق کرد باغیوں اور سنی قبائل پر مشتمل سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا گروپ شام میں داعش کے خلاف سب سے مؤثر گروپ ثابت ہو رہا ہے۔

Syrien Demokratische Kräfte Syriens bei Raqqa
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Democratic Forces

سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق پیر کے روز داعش اور امریکی حمایت یافتہ باغیوں کے مابین الرقہ کے مرکز اور جنوب مغربی علاقے یرموک میں شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق الرقہ کے قدیم مرکزی حصے میں شدید لڑائی جاری ہے اور جنگجوؤں نے الرقہ کی صدیوں پرانی مسجد کے ارد گرد پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔

امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے مطابق اتوار کے روز سے اب تک داعش کے گیارہ جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب داعش سے منسلک نیوز ایجنسی عماق کے مطابق امریکی حمایت یافتہ 14 فائٹرز کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ تاہم فریقین کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔

الرقہ میں لڑائی کا سلسلہ ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے، جب ایک ہفتے پہلے ہی عراق میں داعش کے زیر قبضہ سب سے بڑے شہر موصل پر ملکی فوج نے دوبارہ قبضہ حاصل کیا ہے۔

الرقہ میں داعش کی ناکامی اس تنظیم کے لیے پورے علاقے میں بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ دوسری جانب عراقی سرحد سے منسلک شام کا دیر الزور نامی علاقہ ابھی تک داعش کے قبضے میں ہی ہے۔ داعش کے خلاف لڑنے والے کرد فائٹرز کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے فضائی حملوں کی مدد بھی حاصل ہے جبکہ ان کرد باغیوں کو اسلحہ بھی مغربی حکومتیں فراہم کر رہی ہیں۔

شام میں اسد مخالف احتجاجی مظاہروں کا آغاز مارچ سن 2011 میں ہوا تھا۔ یہی احتجاجی مظاہرے بعد ازاں خانہ جنگی میں بدل گئے اور اب تک وہاں ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام میں بے گھر اور وہاں سے نقل مکانی کر جانے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔