داعش کے ’دارالخلافہ‘ پر امریکی حمایت یافتہ لشکریوں کی چڑھائی
6 جون 2017الرقہ میں داخل ہونے کا اعلان سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی جانب سے کیا گیا۔ اس عسکری تنظیم میں کرد اور عرب جنگجُو شامل ہیں اور اِسے امریکا کی عسکری و مالی امداد و حمایت حاصل ہے۔ اس عسکری گروپ کی خاتون کمانڈر رُوژدا فیلاد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اُن کے جنگجو الرقہ کے مشرقی ضلع المیشلیب میں داخل ہو گئے ہیں۔ فیلاد کے مطابق داعش کے مرکزی شہر کے شمال میں بھی جہادیوں اور اُن کے فائٹرز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے مبصر گروپ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ الرقہ پر چڑھائی کے دوران سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے فائٹرز کو امریکی عسکری اتحاد کے ہوائی جہازوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اس شہر پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے سن 2014 میں قبضہ کیا تھا اور جہادی تنظیم کے لیڈر ابوبکر البغدادی نے موصل کی نوری مسجد میں خلافت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے الرقہ کو ’دارالخلافہ‘ قرار دیا تھا۔
مبصر گروپ سیرین آبزرویٹری کے مطابق امریکی قیادت میں قائم اتحادی فوج اس وقت ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شامی شہر الرقہ میں سے باہر نکالنے میں بے چین اور بےتاب دکھائی دیتی ہے۔ اتحادی فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اسٹیو ٹاؤن سینڈ کا کہنا ہے کہ الرقہ میں داعش کو شکست دینا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہو گا اور اس کے بعد شام اور عراق میں یہ جہادی تنظیم سنبھل نہیں سکے گی کیونکہ اُسے اُس کے دارالخلافہ سے نکال دیا جائے گا۔
سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے ترجمان طلال سیلو کا کہنا ہے کہ کافی دیر سے اس حملے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اور تمام زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد اِس حملے کا آغاز کیا گیا ہے۔ سیلو کے مطابق آج الرقہ کی آزادی کے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اُن کے تمام لشکریوں کو معلوم ہے کہ وہ ایک بڑی جگہ لڑنے کے لیے الرقہ میں داخل ہوئے ہیں۔ سیلو نے الرقہ کو دہشت گردی اور دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا ہے۔ طلال سیلو نے الرقہ کے شمال میں واقع ایک گاؤں حزیمہ میں رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کے دوران حملے کے آغاز کی تفصیلات بیان کی تھیں۔