داعش کے غیرملکی جنگجو موصل سے فرار ہو رہے ہیں، امریکی جنرل
7 مارچ 2017عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیرملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد اس میں پیش رفت سست روی کا شکار ہو گئی تھی۔
اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
دریں اثناء عراقی فورسز نے اس میوزیم پر بھی قبضہ کر لیا ہے، جہاں داعش کے عسکریت پسندوں نے قیمتی نوادرات کو تباہ کرتے ہوئے ویڈیوز بنوائی تھیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی بھی ملکی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے موصل پہنچ گئے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم ملکی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔
عراقی فورسز کو اپنے اس فوجی مشن میں امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کی عسکری حمایت بھی حاصل ہے۔ زیادہ تر فضائی حملے امریکی فضائیہ کی مدد سے کیے جا رہے ہیں جبکہ امریکی فوجی مشیر بھی اگلے مورچوں میں عراقی فورسز کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔
امریکا کے اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ مغربی موصل میں داعش کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت غیرمنظم ہے اور غیر ملکی جنگجو وہاں سے فرار ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومتی فورسز کو شہر میں ’’سخت مزاحمت‘‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن وہ غالب آ جائیں گی۔
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘
امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد آپریشنل لیڈر مار دیے گئے تھے۔ داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔