1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے ہاتھوں غالباً سینکڑوں یرغمالی ایزدی قتل

امجد علی3 مئی 2015

ایزدی (یزیدی) اور عراقی گروپوں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے عراق کی ایزدی اقلیتی کمیونٹی کے یرغمالیوں میں سے تین سو سے زیادہ کو قتل کر دیا ہے۔ مرنے والوں کی قطعی تعداد سے متعلق متضاد اطلاعات ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FJKl
Irak Mossul Jesiden Flüchtlinge Frauen
کُرد پیش مرگا فورسز نے سنجار کو ’داعش‘ کے قبضے سے واپس حاصل کرتے ہوئے ہزارہا یزیدیوں کو رہائی دلوائیتصویر: picture-alliance/AA/E. Yorulmaz

جرمن نیوز ایجنسی ڈی ڈپی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں یزیدی پراگریس پارٹی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان تین سو سے زیادہ یرغمال باشندوں کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیرِ قبضہ شمالی عراقی شہر موصل کے قریب تلعفر کے مقام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

عراق کے غیر سرکاری حقوقِ انسانی کمیشن نے بھی اس انتہا پسند گروہ کے ہاتھوں یرغمال ایزدیوں کی ہلاکت کی خبر دی ہے تاہم اس کمیشن نے مرنے والوں کی تعداد تقریباً ستّر بتائی ہے۔ اس کمیشن کے ایک رکن قُولو سنجری نے کہا کہ ابھی بھی کم از کم تین ہزار ایزدی باشندے ان جہادیوں کے قبضے میں ہیں۔ عراقی دارالحکومت بغداد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا:’’ہم عراقی حکومت اور اپنے دوستوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ معصوم لوگوں کے قتل اور خونریزی کو روکنے کے لیے مداخلت کریں۔‘‘

Jesidische Flüchtlinge im Irak 20.08.2014
’داعش‘ کے جنگجوؤں کے قبضے سے رہائی پانے والے ایزدی (یزیدی) باشندےتصویر: picture-alliance/abaca/Depo Photos

ڈی پی اے کا کہنا ہے کہ ایزدیوں کے قتل سے متعلق رپورٹوں کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ واضح رہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو ایزدیوں کو، جو ایک قدیم عقیدے کے پیروکار ہیں، کافر قرار دیتے ہیں۔

اس سے پہلے بھی ایسی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ القاعدہ سے قریبی وابستگی رکھنے والے دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو گزشتہ برس شمالی عراق میں ایک بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد سے ایزدیوں کی ایک نامعلوم تعداد کو قتل کر چکے ہیں جبکہ یرغمال بنائی گئی ایزدی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی روا رکھتے ہیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں کُرد پیش مرگا فورسز نے ایزدیوں کی اکثریت کے حامل قصبے سنجار کو آزاد کروا لیا تھا۔ تاہم اس سے پہلے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو کئی مہینوں تک اس قصبے پر قابض رہے تھے۔ سنجار کو آزاد کروائے جانے کے بعد یہاں بہت سی اجتماعی قبریں ملیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان قبروں میں اُن ایزدی باشندوں کی جسمانی باقیات ہیں، جو انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

Irak Peschmerga teilweise Rückeroberung Sindschar 20.12.2014
سنجار کے قصبے پر کُرد پیش مرگا فورسز کے قبضے کا ایک منظرتصویر: Reuters/A. Jalal

عراقی حکومتی دستوں نے حالیہ مہینوں کے دوران مقامی نیم فوجی ملیشیاؤں اور امریکی سرکردگی میں ہونے والے فضائی حملوں کی مدد سے اپنی ایسی فوجی کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں، جن کا مقصد عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں کو ان جہادیوں کے قبضے سے آزاد کروانا ہے۔

عراقی حکام ’اسلامک اسٹیٹ‘ پر کئی ایک خونریز حملوں کا الزام عائد کر چکے ہیں۔ ان حملوں میں سے زیادہ تر کار بم حملے تھے، جن کا نشانہ رواں ہفتے دارالحکومت بغداد کو بنایا گیا۔ ہفتہ دو مئی کو بھی وسطی بغداد میں ایک کار بم حملے میں تیرہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کو عراق کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک شام کے بھی بہت سے علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہفتہ دو مئی کو امریکی سرکردگی میں شمالی شام میں ہونے والے فضائی حملوں میں سات بچوں سمیت کم از کم باون شہری ہلاک ہو گئے۔ ان فضائی حملوں کا اصل ہدف شام میں سرگرم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو تھے تاہم غلطی سے عام شہری اس حملے کا نشانہ بن گئے۔

ہفتہ دو مئی کو ہی شامی حکومت کے جنگی طیاروں نے بھی باغی فورسز کو بمباری کا نشانہ بنایا تاہم دیرالزور میں ہونے والی اس کارروائی میں بھی دَس بچوں سمیت کم از کم سولہ شہری مارے گئے۔ دیرالزور کو شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ایک مضبوط گڑھ خیال کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2011ء میں شام میں شروع ہونے والے تنازعے میں اب تک دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید