داووس: مودی سرمایہ کاروں کو لُبھانے کی کوشش میں
22 جنوری 2018کسی بھارتی وزیر اعظم کی ورلڈ اکنامک فورم میں دو دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد یہ پہلی شرکت ہے۔ اس سے قبل 1997 میں اس وقت کے وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا داووس اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ درمیانی مدت میں بھارتی وزیر خزانہ،کوئی دوسرا وزیر یا پھر اعلٰی عہدیدار بھارت کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی کل 23 جنوری کو ورلڈ اکنامک فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کریں گے۔ داووس روانہ ہونے سے قبل انہوں نے ٹوئیٹ کیا، ’’داووس میں میں بین الاقوامی برداری کے ساتھ بھارت کے مستقبل کے بارے میں اپنے نظریات پیش کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ باہمی ملاقاتیں سود مند رہیں گی۔ ان ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور اقتصادی تعاون مضبوط ہوں گے۔‘‘
نریندر مودی کے ساتھ بھارتی وزیر خزانہ، وزیر صنعت، وزیر کوئلہ، وزیرپٹرولیم، امور خارجہ کے وزیر مملکت اور وزیر اعظم کے دفتر میں خصوصی وزیر کے علاوہ اعلٰی افسران، سفارت کاروں اور 130بھارتی کاروباری افراد پر مشتمل ایک بہت بڑا وفد بھی داووس میں موجود رہے گا۔ یہ داووس میں بھارت کا اب تک کا سب سے بڑا وفد ہے۔
چار دنوں تک چلنے والے عالمی اکنامک فورم کے اجلاس کے دوران بھارت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو لُبھانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ بھارت یہ بتانے کی کوشش بھی کرے گا کہ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں تجارت کرنے میں سہولت پیدا کرنے کے لیے متعدد اقدامات اور اقتصادی و ٹیکس اصلاحات لاگو کی گئی ہیں۔ روانگی سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت میں ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ وہ دنیا کو بھارت میں ہوئے اقتصادی اصلاحات کے بارے میں بتائیں گے، یہ ان کا کام ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ بھارت نئی بلندیوں کو چھورہا ہے اور انہیں یہ موقع ملا ہے تو وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم مودی اپنے فلیگ شپ پروگرام ’میک ان انڈیا‘ کو خصوصی طورپر پیش کریں گے۔ اس پروگرام کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھارت میں آکر مینوفیکچرنگ کرنے کے لیے کئی طرح کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ گوکہ بہت سے ملکوں نے اس پروگرام میں دلچسپی ظاہر کی ہے تاہم اب تک عملی طور پر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں بھارت کے سخت او ر پیچیدہ لیبر قوانین کے علاوہ بعض صوبوں میں سیاسی عدم استحکام نیز بائیں بازو کی انتہاپسندی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار بھارت میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کافی سوچتے ہیں۔
وزیر اعظم کے ساتھ جو وفد داووس پہنچا ہے اس میں شامل تجارتی دنیا کی اہم شخصیات کو بھی اس صورت حال کا احساس ہے۔ارب پتی بینکر اور کوٹک مہندرا بینک کے ڈائریکٹر ادے کوٹک نے وزیر اعظم مودی کو مشور ہ دیا، ’’بھارت کو سیلز اور مارکیٹنگ کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنی مدبرانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ترقی کی کہانی پیش کرنی چاہیے۔ ہمیں اس فورم میں صرف سیلزمین نہیں بلکہ اسٹیٹس مین (مدبر) کی طرح دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح کا نیو انڈیا بنارہے ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی آج کل بھارت کے لیے ایک نئی اصطلاح ’نیوانڈیا‘ کا استعمال کررہے ہیں۔
سستی فضائی سفر فراہم کرنے والی کمپنی اسپائس جیٹ کے سی ای او اجے سنگھ کہتے ہیں، ’’بھارت کے پاس اپنی ترقی کی کہانی پیش کرنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں اور وزیر اعظم مودی سے بہتر طریقے سے کوئی دوسرا انہیں پیش نہیں کرسکتا۔ 1.4بلین آبادی اور نوجوانوں کی اکثریت کے ساتھ بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ گزشتہ برس جب چین کے وزیر اعظم داووس گئے تھے تو چین کی طرف کافی توجہ مبذول ہوئی تھی اس مرتبہ مودی کی موجودگی سے بھارت کی طرف دنیا کی توجہ مبذول ہونا فطری ہے۔‘‘
اقتصادی امور کی ماہر کنیکا دتہ تاہم مودی کے دورے کی کامیابی پر تحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔ انہوں نے ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ میں اپنے مضمون میں لکھا ہے، ’’مودی کا یہ دورہ اچھے ماحول میں نہیں ہورہا ہے، مودی کی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی معیشت سست پڑتی جارہی ہے۔ یہ درست ہے کہ موڈیز نے ناقابل فہم وجوہات کی بنا پر بھارت کی ساورین (Sovereign) ریٹنگ میں بہتری کی ہے اور ورلڈ بینک نے کاروبار میں سہولت کی ریکنگ بھی بہتر کی ہے لیکن زمینی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔‘‘
کنیکا دتہ مزید لکھتی ہیں، ’’امریکی صدر باراک اوباما بڑی صاف گوئی سے یہ کہہ چکے ہیں کہ پچھلے تین برسوں میں اگر بھارت نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی ہے تو اس کی وجہ اقتصادی نہیں بلکہ اس کی وجہ گؤ رکھشا کی جاری مہم، لوو جہاد اور ذات کی بنیاد پر کی جانے والی بے رحمی ہے۔‘‘