دجلہ کی پیاس، عراق کا یہ عظیم دریا کیوں مر رہا ہے؟
29 ستمبر 2022انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور ان تبدیلیوں نے دجلہ کے زبردست بہاؤ کو روک دیا ہے۔ یہ کچھ نیچے جا کر دریائے فرات سے ملتا ہے اور انہی دو دریاؤں نے اس خطے کو ہزاروں سال قبل میسوپوٹیمیا (بین النہرین) کی تہذیب کا گہوارہ بنایا تھا۔
میسوپوٹیمیا یونانی لفظ ہے اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابقدریائے دجلہ و فرات کے درمیانی خطے میں ہی پہلی انسانی تہذیب نے جنم لیا تھا۔
عراق تیل کی دولت سے مالا مال ہو سکتا ہے لیکن یہ ملک کئی دہائیوں کی جنگ، خشک سالی اور بنجر ہونے کے بعد غربت سے دوچار ہے۔ موسم گرما میں عراق میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر چلا جاتا ہے اور انسانوں کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
دریائے دجلہ اہم کیوں ہے؟
دجلہ عراقی شہروں موصل، بغداد اور بصرہ کے شہروں کو جوڑتا ہے اور اسے ان شہروں کی لائف لائن قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اس دریا پر بنائے جانے والے ڈیموں کی وجہ سے اب یہ خود پیاس سے مر رہا ہے۔ زیادہ تر ڈیم اوپر ترکی کے علاقے میں بنائے گئے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک ویڈیو جرنلسٹ نے پندرہ سو کلومیٹر طویل اس دریا کے ساتھ ساتھ سفر کیا ہے۔ اس صحافی کا سفر شمالی کرد پہاڑی علاقوں سے شروع ہوا تھا اور جنوبی خلیج میں آ کر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران ماحولیاتی تباہی کو فلم بند کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اپنے قدیم طرز زندگی کو تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔
دریائے دجلہ کا آغاز
عراق میں بہنے والے دریائے دجلہ کا سفر شمال میں ترکی اور شام کی سرحدوں کے قریب خود مختار کردستان کے پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ اسی پہاڑی علاقے میں مقیم 41 سالہ کسان پیبو حسن کا کہنا ہے، ''ہماری زندگیوں کا انحصار دجلہ پر ہے۔ ہمارے تمام کاموں اور زراعت کا انحصار اس پر ہے۔‘‘
لیکن اس علاقے کے رہائیشیوں کو بھی مستقبل کے خطرات کا اندازہ ہو رہا ہے۔ پیبو حسن کہتے ہیں، ''پہلے بہنے والے پانی کی مقدار زیادہ ہوتی تھی لیکن اب گزشتہ دو، تین برسوں سے اس کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے، دن بدن پانی کم ہو رہا ہے۔‘‘
ترکی کے ڈیم
عراقی حکومت اور کرد کسان پانی کی کمی کا الزام ترکی پر عائد کرتے ہیں، جہاں دجلہ کا منبع ہے۔ ان کے مطابق ترکی ڈیموں میں پانی بھرتا ہے اور اس کا عراق میں بہاؤ کم ہو جاتا ہے۔ عراقی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عراق میں داخل ہونے والے دجلہ کے پانی کی مقدار گزشتہ ایک صدی کے دوران اوسطاﹰ 35 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
بغداد حکومت باقاعدگی سے انقرہ کو مزید پانی چھوڑنے کا کہتی رہتی ہے۔ دوسری جانب رواں برس مئی میں عراق میں ترک سفیر علی رضا گونے نے عراق پر زور دیا تھا کہ وہ ''دستیاب پانی کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرے‘‘۔ ان کا ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہنا تھا، ''عراق میں زیادہ تر پانی ضائع کر دیا جاتا ہے‘‘۔
ماہرین کے مطابق ترک سفیر کے اس بیان میں وزن بھی ہے۔ عراقی کسان فصلوں کو سیراب کرنے کی بجائے اپنے کھیتوں میں سیلاب لاتے ہیں، جیسا کہ وہ قدیم سمیری دور سے کرتے آئے ہیں۔ اس طرح بہت زیادہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
مرکزی علاقوں کی خشک ہوتی نہریں
دارالحکومت بغداد کے قریب مرکزی میدانی علاقوں میں دجلہ سے نکلنے والی ایک معاون ندی دیالہ میں اب جو کچھ باقی بچا ہے، وہ ٹھہرے ہوئے پانی کے جوہڑ ہیں۔ خشک سالی نے اس آبی گزرگاہ کو خشک کر دیا ہے، جو خطے کی زراعت کے لیے انتہائی اہم تھی۔اس سال عراقی حکام نے زیر کاشت علاقوں کو نصف تک کم کر دیا ہے یعنی بری طرح سے متاثرہ دیالہ میں کوئی فصل نہیں اگائی جائے گی۔
اس علاقے کے رہائشی بیالیس سالہ ابو مہدی کا کہنا تھا، ''ہم کھیتی باڑی چھوڑ کر اپنے جانور بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ہم اسی کی دہائی میں ایران جنگ کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور اب پانی کی وجہ سے بے گھر ہوں گے۔ پانی کے بغیر تو ہم اس علاقے میں رہ ہی نہیں سکتے۔‘‘
ابو مہدی کا کہنا ہے کہ کسانوں نے ایک سو فٹ تک زمین کھودی تاکہ پانی نکالا جا سکے، ''ہم نے ہر چیز بیچ دی لیکن ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔‘‘ ورلڈ بینک نے گزشتہ برس خبردار کیا تھا کہ عراق کے بیشتر حصوں کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا، ''ان حالات میں عراق کی تقریباً ایک تہائی زرعی زمین کو پانی نہیں ملے گا۔‘‘
اس موسم گرما کے دوران دجلہ کی سطح اتنی نیچے گر گئی تھی کہ بغداد کے لوگ دریا کے بیچوں بیچ والی بال کھیلتے تھے۔
بغداد کے سیوریج کا پانی اور کوڑا کرکٹ بھی سکڑتے ہوئے دجلہ میں جاتا ہے، جس سے آلودگی پیدا ہو رہی ہے اور ایک ایسا زہریلا سوپ بن رہا ہے، جو سمندری حیات اور انسانی صحت کے لیے خطرہ ہے۔
جہاں دریائے فرات اور دجلہ ملتے ہیں
وہ مقام جہاں دریائے دجلہ و فرات ملتے ہیں، کبھی میٹھے پانی کی مچھلیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ ان دونوں دریاؤں کے مجموعی دھارے کو شط العرب کہتے ہیں۔ اپنی کشتی میں ننگے پاؤں کھڑے ماہی گیر نعیم حداد کا شط العرب کے پانیوں پر غروب ہوتے سورج کو دیکھتے ہوئے کہنا تھا، ''باپ سے لے کر بیٹے تک، ہم نے اپنی زندگیاں ماہی گیری کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔‘‘
لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ نیچے سے سمندری پانی اوپر آ رہا ہے اور میٹھے پانی کی مچھلیاں کم ہو رہی ہیں۔ حداد سمندر میں ماہی گیری کی طرف نہیں جا سکتا کیونکہ اس کی کشتی چھوٹی ہے اور خلیجی پانیوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ وہاں وہ کشتیاں جاتی ہیں، جو ایرانی اور کویتی کوسٹ گارڈز کے آنے کے بعد فرار ہونے کا خطرہ مول لیتی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ماہی گیروں کو عراق کے سکڑتے دریاؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، ان کی قسمت بھی دریائے دجلہ و فرات کے بہاؤ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
نعیم حداد کا افسردہ لہجے میں کہنا تھا، ''اگر پانی چلا جاتا ہے تو ماہی گیری بھی جاتی ہے۔ اسی طرح ہماری روزی روٹی بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘
ا ا / ع ص (اے ایف پی)