درسگاہیں غیر شرعی نظام کی بنیاد ہیں، حملے جائز ہیں، طالبان
22 جنوری 2016طالبان کمانڈر عمر منصور نے اپنی اس ویڈیو میں واضح الفاظ میں کہا:’’ اب ہم فوجیوں کو چھاؤنیوں میں نشانہ نہیں بنائیں گے، نہ ہی عدالتوں میں وکلاء پر اور پارلیمان میں سیاستدانوں پر حملے کیے جائیں گے بلکہ ہم اس بنیاد کو ہلائیں گے، جہاں پر ان سب کو تیار کیا جاتا ہے، یعنی اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو۔‘‘ اس موقع پر منصور کے اطراف چند دہشت گرد بھی موجود ہیں، جن میں تین کے چہرے چھپے ہوئے ہیں۔
اس ویڈیو سے طالبان کی قیادت میں اختلافات اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ کیونکہ طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے اپنے بیان میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں طالبان کے ملوث ہونے کو مسترد کیا تھا۔ خراسانی نے اس طرح کی کارروائی کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ تاہم اسی روز عمر منصور نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ اس کے جنگجوؤں نے یونیورسٹی کو نشانہ بنایا تھا کیونکہ یہاں پر نوجوانوں کو فوج اور سرکاری اداروں میں نوکریوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ منصور کا شمار ملا فضل اللہ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے، جو تحریک طالبان کا سربراہ ہے۔
عمر منصور اور محمد خراسانی کے ایک متضاد بیان جاری کرنے کی وجہ ابھی تک غیر واضح ہے۔ تاہم اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ طالبان کی قیادت تقسیم کا شکار ہے اور تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ عمر منصور کے بقول’’ اللہ کے فضل و کرم سے تمام جامعات اور اسکولوں پر حملے جاری رہیں گے‘‘۔ اس ویڈیو میں چار حملہ آور بھی موجود ہیں، جن میں دو نو عمر دکھائی دیتے ہیں۔ ان افراد کو چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی تیاری کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کر دیا گیا تھا۔ اس دوران اب تک سینکٹروں مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔