’دس برس بعد جرمنی میں ساٹھ لاکھ ہنر مند درکار ہوں گے‘
17 اپریل 2017جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے آجروں کی تنظیم (بی ڈی اے) کے صدر انگو کرامر نے مطالبہ کیا کہ رواں برس انتخابات کے بعد نئی جرمن حکومت کو جرمن روزگار کی منڈی کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک میں نئی امیگریشن پالیسی ترتیب دینا چاہیے۔
’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘
کرامر کا کہنا تھا، ’’اس سے میری مراد صرف یہ نہیں ہے کہ دور دراز کے ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کو جرمنی آنے دیا جائے بلکہ ہمارے ایسے یورپی پڑوسی ممالک سے، جہاں بے روزگاری کی شرح جرمنی کے مقابلے میں زیادہ ہے، تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد کو جرمنی لایا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ 1950 اور ساٹھ کی دہائی کی طرح اب بھی جرمن سیاست دانوں کو فوری طور پر اس مسئلے کی جانب توجہ دینا چاہیے۔ کیوں کہ سن 2030 تک ساٹھ لاکھ جرمن شہری ایسے ہوں گے جو عمر رسیدہ ہونے کے باعث مزید کام نہیں کر سکیں گے جس کے بعد جرمنی میں کام کرنے کے لیے تارکین وطن کی ضرورت پڑے گی۔
کریمر کے مطابق، ’’جرمنی تارکین وطن کا ملک ہے اور جرمنی کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ مہاجرین کے بحران کے بعد پیدا شدہ صورت حال، خاص طور پر دائیں بازو کے سیاست دانوں کے ردِ عمل کے باعث غیر ملکیوں کو جرمنی میں کام کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
متبادل صورتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بی ڈی اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر ہنر مند غیر ملکیوں کو جرمنی نہ لایا جائے تو ایسی صورت میں ڈیجیٹلائزیشن کا سہارا لینا پڑے گا اور زیادہ خواتین کو روزگار کی منڈی تک لانا پڑے گا۔