دس برسوں میں پاکستان قحط کا شکار ہو سکتا ہے، رپورٹ
30 مئی 2016
کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ دس سال کے بعد ملک میں پانی کی شدید قلت ہونے کا خطرہ ہے اور بات قحط سالی تک بھی جاسکتی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اس اعلیٰ افسر نے کہا،’’پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی برسوں میں ملک میں پانی کی فراہمی 5600 کیوبک میڑ فی کس سالانہ تھی، جو اب صرف ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس سالانہ ہے اور یہ بھی اُس مردم شماری کے مطابق ہے۔ جو کئی سالوں پہلے کی گئی تھی۔‘‘
آبی امور کے ماہر عرفان چوہدری بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کا ایک بہت بڑا بحران آنے والا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی ہماری صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ ہم نے گزشتہ چار دہائیوں میں پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنایا۔ ڈیموں اور بیراجوں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اُس کی تعمیر کے وقت دس ملین ایکڑ فٹ تھی تو وہ اب چھ ملین فٹ ہوگئی ہے اورِ اس کمی کی ایک وجہ جنگلات کے سکڑنے کا عمل بھی ہے۔ درختوں کے کٹنے سے مٹی کے جمع ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ درخت نہ ہونے کی وجہ سے کیونکہ پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا تو مٹی، کنکر، پتھر اور ریت آکر ڈیموں اور بیراجوں کے ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں بارش کی اتنی کمی نہیں ہے لیکن مون سون کے پیٹرن میں تبدیلی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے جب بیج اگانے کا موسم ہوتا ہے، تو پانی وافر مقدار میں موجود نہیں ہوتا اور جب فصلوں کی کٹائی کا وقت ہوتا ہے تو پانی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے سب سے پہلے اپ اسٹریم علاقے میں بڑے پیمانے پر درخت لگانے چاہییں تاکہ اس سے نہ صرف مٹی وغیرہ کے پانی کے ساتھ بہنے کا عمل رکے بلکہ سیلابی ریلوں کی بھی روک تھام کی جاسکے۔ اس سے ڈیموں اور بیراجوں کو پہنچنے والے نقصان کو بھی کسی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر بھی کی جانی چاہیے تاکہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔‘‘
عرفان چوہدری نے کہا،’’ہم دریائے سندھ کا بمشکل نو سے بارہ فیصد پانی ذخیرہ کر پاتے ہیں، جب کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں یہ ذخیرہ کم ازکم تیس سے چالیس فیصد ہوتا ہے۔ ہمیں اس صورتِ حال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔‘‘
لیکن کیا اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی کام ہو رہا ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے،پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسوریسز کے ڈائریکڑ جنرل ڈاکڑ اشفاق احمد شیخ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمیں فصلیں اگانے کے ایسے طریقے استعمال کرنے ہوں گے، جس میں ہم پانی کی بچت کر سکیں۔ مثال کے طور پر ہم نے Rice on Bed کا طریقہ شیخوپورہ اور سرگودھا کے کچھ علاقوں میں شروع کیا، جس سے چاول کی کاشت کے دوران چالیس سے پچاس فیصد تک پانی کی بچت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پہلے کسان 5000 ملی میڑ پانی استعمال کر رہا تھا تو اب وہی چاول کی کاشت پنجاب میں 600 ملی میٹر میں ہو رہی ہے۔ سندھ میں کیوں کہ خشکی زیادہ ہے اس لئے وہاں 1400ملی میٹر کے قریب پانی لگ رہا ہے۔ اب ہم فیصل آباد اورلاہور کے کچھ علاقوں میں بھی اس طریقے کو اپنائیں گے، جس سے پانی کی بچت میں بہت مدد ملے گی۔‘‘
سندھی قوم پرست سیاست دان ایاز لطیف پلیجو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’عالمی سطح پر درجہ ء حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے گلیشئرز پگھل رہے ہیں اور سیلاب آرہے ہیں۔ پاکستان میں ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ پہلے تو، جو موجودہ زرعی زمینیں ہیں انہیں بچانا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ سندھ کے مفادات کو نظر انداز کر کے چولستان کو سیراب کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایسی فصلیں اگائی جائیں، جن میں کم پانی لگتا ہے۔ حکومت کو کرپشن ختم کر کے ایمانداری سے پیسہ آبی ذرائع کی بہتری کے لئے خرچ کرنا چاہیے۔‘‘