دشتِ تنہائی میں اب کوئی اقبال بانو نہیں
26 اپریل 2009اکیس اپریل دو ہزار نو کو اقبال بانو ایک نئی منزل جانب کوچ کرگئیں اورموسیقی کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے سوگوار چھوڑ گئیں۔
آل انڈیا ریڈیو دہلی سے گائیکی کے سفرکا آغاز کرنے والی اقبال بانو کافی عرصے سے ہی گانا ترک کر چکی تھیں۔ کس کو یاد تھا کہ وہ کہاں ہیں، کس جگہ رہتی ہیں، اب کیوں نہیں گاتیں۔ وہ ان غزل گائکوں میں سے تھیں جنہوں نے غزل کوعوام کے دلوں تک پہنچایا ورنہ یوں تو غزل گانے والوں کی ان سے پہلے بھی کمی نہ تھی۔ ملکہِ غزل بیگم اختر کے اندازِ گائیکی سے متاثر ہوکرانہوں نے غزل گانا شروع کی اور اس میں سے ایک جداگانہ راہ نکال لی۔ ایسا کم ہی فنکار کرسکے۔ انیس سو ستاون میں وہ پاکستان تشریف لے آئیں اورعوام کے علاوہ شعراء میں بھی اس لیے مقبول ہوئیں کہ اگر وہ ان کا کلام گا دیتیں تو وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا۔ کیسے کیسے نغموں کو انہوں نے جاوداں نہیں کیا۔
اکیس اپریل کو ڈاکٹرمحمّد اقبال کا بھی انتقال ہوا تھا۔ اکیس اپریل کو ہی اقبال بانو کوچ کرگئیں۔ یہ محض اتفاق ہوسکتا ہے۔ شاید اتفاق ہی ہو۔ مگر جب ان کے انتقال کی خبر پھیلی تو تمام لوگ جیسے سوتے سے جاگ اٹھے۔ لوگوں کو یاد آیا کہ اقبال بانو بھی تھیں جو اب نہیں رہیں۔ زرائع ابلاغ اور ٹی وی چینلوں پر ہر وقت چھائے رہنے والے کوڑے، خود کش حملے، سوات، امریکی سفیر، یہ سب زرا دیر کے لیے پسِ پشت چلے گئے۔ بانو رخصت ہوئیں تو فیض احمد فیض جی اٹھے۔
عرصہ ہوا بھلا دیے جانے والے ایک اور پاکستانی گلوکارعالمگیر بھی ہیں جو امریکہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمگیر پاکستان میں پوپ موسیقی کی لہرشروع کرنے والوں میں سے تھے۔ جب ہم نے ان کو فون کرکے دریافت کیا کہ اقبال بانو کے انتقال پر ان کے کیا تاثرات ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ خبر ان پر بجلی کی طرح گری ہے۔
جس طرح کندن لال سہگل کے طرزِغزل گائکی کو حبیب ولی محمّد اور سی ایچ آتما جیسے فنکاروں نے آگے بڑھایا، جس طرح طلعت محمود کے غزل گانے کے اسلوب کو مہدی حسن اور مہدی حسن کے انداز کو انفرادیت کے ساتھ جگجیت سنگھ نے پروان چڑھایا، اسی طرح بیگم اختر کے نام سے مشہور اختری بائی فیض آبادی کے انداز کو اقبال بانو اور فریدہ خانم جیسے گلوکار آگے لے کر چلے۔ ان میں جدید ترین نام نیّرہ نور کا ہے۔ اقبال بانو اب ہم میں نہیں رہیں۔ بیگم اختر کے انتقال کے بعد کہا جاسکتا تھا کہ ان کے بعد بے حد مضبوط غزل گائک برِ صغیر پاک و ہند میں موجود ہیں۔ مگر اقبال بانو کے انتقال کے بعد پاکستان میں کیا ان کی جگہ لینے کے لیے لوگ موجود ہیں۔ نیّرہ نور کہتی ہیں کہ اس حوالے سے ان کو کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ عالمگیر کی رائے بھی اس سے ملتی جلتی ہے (نیّرہ نور، عالمگیر اور فریدہ خانم کے مکمل انٹرویوز سننے کے لیے نیچے دیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیے)