1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دلت، ذات پات کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے

افسر اعوان30 اگست 2016

بھارت میں خود کو گائے کے محافظ قرار دینے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کی جانے والی ویڈیو فوٹیج انتہائی ظالمانہ تھی۔ اس میں اوپری دھڑ سے برہنہ چار افراد کو رسیوں کی مدد سے ایک کار کے ساتھ باندھے ہوئے دکھایا گیا۔

https://p.dw.com/p/1Js6M
تصویر: UNI

سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں غصے سے بھرا مجمع باری باری ڈنڈوں، بیلٹوں اور لوہے کی سلاخوں سے ان پر تشدد کر رہا ہے۔ ان کا جرم محض یہ تھا کہ انہوں نے مری ہوئی ایک گائے کی کھال اتاری تھی۔ انتہائی شدید تشدد کا نشانہ بننے والے ان چاروں افراد کو تعلق دلت برادری سے تھا جسے بھارت میں صدیوں سے چلے آ رہے ذات پات کے نظام میں سب سے کم تر ذات گردانا جاتا ہے۔

ان افراد کو بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے ایک چھوٹے شہر اونا میں گزشتہ ماہ اس بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کرنے والے ’اونچی ذات‘ سے تعلق رکھنے والے مرد تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت میں ذات برادری نظام کی دستوری خاتمے کے 65 برس سے زائد عرصے کے بعد بھی وہاں ذات پات کا یہ نظام کس قدر مضبوط ہے اور کس طرح کم تر سمجھی جانے والی ذات کے لوگوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اونا میں پیش آنے والے واقعے کے بعد دلتوں کی طرف سے بھارت بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا
اونا میں پیش آنے والے واقعے کے بعد دلتوں کی طرف سے بھارت بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیاتصویر: UNI

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کی طرف سے دلتوں کے خلاف ناانصافی کے واقعات سے اخبارات بھرے ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے دلت برادری کے خلاف ہونے والے واقعات میں سے ایک میں ایک 13 سالہ لڑکی کو اس بات پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اُس نے ایک مندر کے نلکے سے پانی پی لیا تھا۔ دلت کھلاڑیوں پر مشتمل کبڈی کی ایک ٹیم کو اونچی ذات کے ہندوؤں کی مخالف ٹیم اور شائقین کی طرف سے اس بات پر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ میچ جیت گئے تھے۔ اسی طرح اونچی ذات کے ایک ہندو دکاندار کے ساتھ محض 15 روپے کے تقاضے پر ایک دلت جوڑے کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

تاہم اونا میں پیش آنے والے واقعے کے بعد دلتوں کی طرف سے بھارت بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس احتجاج سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید دلت برادری اب بے انصافی برداشت کرنے کو مزید تیار نہیں ہے، یہ کہنا ہے ’نیشنل کمپین آن دلت ہیومن رائٹس‘ سے وابستہ بینا پالیکال کا۔ نئی دہلی میں قائم اپنے دفتر میں حال ہی میں ایسوسی ایٹد پریس سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’اونا ہماری لڑائی میں ایک اہم موڑ تھا۔۔۔ دلت برادری اب مزید خاموش نہیں رہے گی۔ ہم ہر طرح کی بے انصافی کے خلاف بطور احتجاج اُٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘

دلت برادری کی نئی نسل ذلت برداشت نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ اسے قبول کریں گے، چندرا بھان پرساد
دلت برادری کی نئی نسل ذلت برداشت نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ اسے قبول کریں گے، چندرا بھان پرسادتصویر: dpa - Bildarchiv

بھارت میں 2011ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک کی کُل 1.2 بلین کی آبادی میں سے 204 ملین دلت ہیں۔ یہ تعداد برازیل کی مجموعی آبادی کے برابر بنتی ہے جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کی رپورٹس کے مطابق 2014ء کے دوران مختلف حملوں میں 700 دلت ہلاک ہوئے۔

ایک دلت مصنف چندرا بھان پرساد کے مطابق، ’’دلت برادری کی نئی نسل ذلت برداشت نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ اسے قبول کریں گے۔‘‘ دلتوں کے حقوق پر بہت زیادہ لکھنے اور لیکچرز دینے والے پرساد کا مزید کہنا تھا، ’’انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے ہاتھوں غلامی سے نکلنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘‘