دماغ کے اسرار، آرٹ اور سائنس میں اظہار
ہمارا دماغ کیسے کام کرتا ہے؟ بون شہر کے میوزیم میں نمائش جاری ہے، جس میں سائنس اور آرٹ ورک کو ملا کر انسانی دماغ سے جڑے کچھ سوالات کے جوابات مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
روح جیسے پرندہ
انسان کو کیا شے انسان بناتی ہے؟ خیالات، احساسات یا روح؟ مختلف مذاہب اور مکاتبِ فکر اس سوال کا جواب اپنے اپنے طور پر دیتے ہیں۔ قدیم مصر میں لوگ روح کو پرندے کے طور پر تصور کرتے تھے، جس کے اڑ جانے کا مطلب ہوتا تھا، موت۔ 24 سو برس پرانا ایسا ہی ایک ’روح پرندہ‘ اس وقت بون کے کنسٹل ہالے میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
گتے کے ڈبے اور کرسمس کی بتیاں
کھوپڑی کے اندر کیا ہے؟ قدیم وقتوں سے ہی انسان اس بابت تخمینے لگاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو سمجھتے تھے، دماغ خون کے بہاؤ کو ٹھنڈا بنانے والا کوئی یونٹ ہے۔ اسرائیلی مصور یارون اسٹائن برگ نے دماغی ڈھانچے کو مختلف ڈبوں اور درازوں سے مزین بنایا ہے، جو خیالات اور یادداشت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں تو کرسمس کی بتیوں کے لیے بھی جگہ بنائی گئی ہے۔
غیرعمومی ذاتی پوٹریٹس
جرمن مصور ایزا گینسکن نے دماغ سے جڑے سوال کا جواب تقریباﹰ طبی انداز سے دیا ہے۔ ’’مائی برین‘‘ ان کا دو ہزار دس کی ایک فوٹوگرافک شاہ کار ہے، جس میں انہوں نے اپنے ہی دماغ کا سی ٹی امیج استعمال کیا۔ تھری ڈی ایکسرے کو انہوں نے جسم کے دیگر حصوں کی تصاویر کے لیے استعمال کیا۔ گینسکن کا کام ‘سیلف پورٹریٹ‘ کی مثال ہے۔ ظاہر ہے ہر دماغ بھی تو کسی چہرے کی طرح یگانہ ہوتا ہے۔
دوستانہ تاثر
کئی صدیوں سے میڈیکل سائنس انسانی دماغ پر بھرپور تحقیق کر رہی ہے، مگر 20ویں صدی میں ایسی ٹیکنالوجیز سامنے آئیں، جن کے ذریعے اس شعبے میں واضح پیش رفت ہوئی۔ تاہم اب بھی بے شمار سوالات ہے، جن کا جواب موجود نہیں۔ ہم کیسے سوچتے ہیں، جذبات کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ ماریہ لاسنگ کی یہ پینٹنگ ’’انسپرائرشن‘‘ بتاتی ہے کہ سبز مخلوق اپنی ایک انگلی سے دوستانہ اشارہ دے رہی ہے۔
ڈیکاٹ کی کھوپڑی
رینے ڈیکاٹ (1596-1650) فرانسیسی فلسفی، ریاضی دان اور سائنس دان تھے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے ’کوگیٹو ایرگو سم‘ (میں سوچتا ہوں ، اس لیے میں ہوں) کی اصطلاح بنائی تھی۔ اس مشہور زمانہ فلسفی کی موت کے بعد ان کی تحریروں پر اس وقت کے پوپ نے پابندی عائد کر دی تھی، مگر اس فلسفی کی کھوپڑی اس وقت پیرس کے میوزم ڈے ہوم کی قیمتی ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ اسے بھی بون میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
دماغ سے رابطہ
سائنس کو کیا شے مذہب سے جدا کرتی ہے؟چینی فنکارہ لو ینگ اسی سوال کا جواب تلاش کر رہی ہیں۔ ان کی کمپیوٹر گیم سیمیولیشن ، جہاں بودھ مت کے چار اہم عناصر زمین، پانی، آگ اور ہوا کا استعمال کرتے ہوئے دماغ سے سیمیولیشن کے ذریعے رابطہ کرتی ہے۔ آج کی طب بھی ’برین پیس میکرز‘ کو پارکنسن، مرگی اور ڈپریشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
کیکی اسمتھ کا خواب
کیا میری انا اور میرا جسم ایک ہی ہیں؟ بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں۔ حالاں کہ ڈوؤلزم میں جسم اور روح ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر موت سے متعلق ہمارے خیالات ترتیب دیتے ہیں۔ اختیار اور جبر کے سوال کا جواب بھی اسی سے جڑا ہے۔ اسی طرح ہم خواب کیسے دیکھتے ہیں کے سوال کا جواب بھی۔ جرمن امریکن کیکی اسمتھ اپنے اس دو رنگی اظہاریے کو ’ٹراؤم‘ یا خواب اسی لیے پکارتی ہیں۔
یسوع مسیح کی بانہوں میں میری کی روح
موت کے بعد روح کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ یہ سوال قرونِ وسطیٰ میں مسیحی اٹھایا کرتے تھے۔ جھیل کونسٹانس سے ’مسیح کی بانہوں میں میری کی روح‘ کا لکڑی کا یہ اظہاریہ 1320 کا ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامتی عکاسی ہے کہ روح جسم سے کس حد تک جدا ہوتی ہے۔
احساسات کی گرہیں
انسان بحث کرتا ہے، لڑتا ہے، دکھ اور تکلیف محسوس کرتا ہے اور مشاہدہ کرتا ہے۔ برطانوی فنکار رچرڈ اینیس کی 1991 کی یہ پینٹنگ انسانی دماغی کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ بعض اوقات انسانی جذبات کے اظہاریے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
ماکس ارنسٹ کا منتشر دنیا کا اظہاریہ
جرمن فنکار ماکس ایرنسٹ (1891-1976)کو ماہرنفسیات زِگمونڈ فروئڈ کے کام اور دماغی مسائل کے شکار افراد میں دلچسپی تھی۔ انہوں نے 1913 میں بون شہر میں اپنے طالب علمی کے دور میں یہ تصویر بنائی۔ بون میں انہوں نے فلسفہ، نفسیات اور آرٹ ہسٹری کی تعلیم حاصل کی تھی۔
ایک گہری نظر درکار
انسانی دماغ غیرمعمولی شے ہے۔ بون کے کنسٹ ہالے میوزم میں جاری ’دی برین اِن آرٹ اینڈ سائنس‘ نمائش اس بابت کئی سوالات کے جوابات دے رہی ہے۔ یہ نمائش 26 جون تک جاری رہے گی۔