1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

دنیا بھر میں کم سن فوجی، دس حقائق

12 فروری 2021

اقوام متحدہ کی جانب سے جمعے کے روز جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں کم سن فوجیوں کی بھرتی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3pGzG
Jemen Kindersoldaten
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais

جمعے کو 'ریڈ ہینڈ ڈے‘ کہلانے والے کم سن بچوں کی بہ طور فوجی بھرتی کے انسداد کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ عالمی وبا دنیا بھر میں اس تباہ کن رجحان میں اضافہ کر سکتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کم از کم 14 ایسے ممالک ہیں، جہاں بچوں کو جبراﹰ حربی سرگرمیوں اور دیگر جنگی کرداروں کے لیے بھرتی کیا جا سکتا ہے۔ ان ممالک میں ڈیموکریٹک ریپببلک کانگو، جنوبی سوڈان اور صومالیہ شامل ہیں۔ تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن نے اس حوالے سے متعدد حقائق مرتب کیے ہیں۔

بچوں کو بطور فوجی استعمال کرنے کے خلاف عالمی دن

ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت

کم سن فوجیوں کی تعداد

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں کم سن فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔  صرف 2019 میں دنیا بھر میں کم از کم سات ہزار سات سو چالیس بچوں کو حربی سرگرمیوں کے لیے مجبور کیا گیا، جب کہ ان میں سے کچھ کی عمریں چھ برس تک کی بھی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچے غیر ریاستی عناصر نے جنگجو سرگرمیوں کے لیے بھرتی کیے۔

سب سے زیادہ کم سن فوجی کہاں؟

سب سے زیادہ کم سن فوجی ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، صومالیہ، شام اور یمن میں ہیں۔ بچوں کو خانہ جنگی کے شکار ممالک میں مختلف غیر ریاستی عناصر جنگی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

کم سن جنگجو، فقط جنگ کے لیے نہیں

بچوں کو مسلح فورسز یا جنگجو گروہوں ہی کی جانب سے جنگ ہی کے لیے بھرتی نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں مخبری، چوری، پیغام رسانی، جاسوسی حتیٰ کہ جنسی غلامی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

بچوں سے جبری مشقت، مشقت کی بدترین قسم

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مشقت کے مطابق مسلح تنازعات کے مقامات پر بچوں سے لی جانے والی مشقت، جنسی استحصال کے لیے اسمگلنگ کے بعد بچوں سے لے جانے والی سب سے بدترین مشقت ہے۔

کم سن فوجی صرف لڑکے نہیں

بتایا گیا ہے کہ ہاتھوں میں بندوقیں تھامنے والے یہ بچے فقط لڑکے نہیں بلکہ کئی مقامات پر کم عمر لڑکیوں کو بھی بہ طور فوجی استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق افغانستان، کولمبیا، وسطی افریقی جمہوریہ، نائیجیریا، جنوبی سوڈان، شام اور یمن میں لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی عسکری مقاصد کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق بچوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنا ، عالمی سطح پر مسلمہ قانون شکنیوں میں سے ایک ہے۔ عالمی ضوابط کے مطابق بچوں کو کسی بھی مقصد کے لیے قتل کرنا، ان کا جنسی استحصال کرنا، انہیں اغوا کرنا، ان کے اسکولوں یا ہسپتالوں کو نشانہ بنانا یا ان کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کا راستہ روکنا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔