’دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ، عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹیاں‘
4 جنوری 2020جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے فورا بعد ہی ایران نے بدلہ لینے کی آوازیں بلند کرنا شروع کر دی تھیں۔ صورتحال کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے مغربی اور دیگر عالمی طاقتوں نے دونوں ملکوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیلیں شروع کر دی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے اتحادی ممالک سے اس حملے کا دفاع کرنے کا کہا ہے جبکہ دنیا کے سفارت کار آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکا کو اس کا 'سخت جواب دینے‘ کی دھمکی دی ہے جبکہ مقتول جنرل سیلمانی کے نائب جنرل اسماعیل غنی کو قدس فورس کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئٹریش نے دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'دنیا خلیج فارس میں ایک نئی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی‘۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی اقوام متحدہ کے سربراہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہے، ''مزید کشیدگی کو، جو پورے خطے کو آگ لگا سکتی ہے، روکنے کی ضرورت ہے۔‘‘ تاہم ماس نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ حملہ ''ایران کی متعدد خطرناک اشتعال انگیزیوں کے بعد کیا گیا ہے۔‘‘
سعودی عرب کے اتحادی ملک متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے 'ایک پرامن سوچ اور جذبات کو علیحدہ کرتے ہوئے عقلی اقدامات اٹھانے‘ کی اپیل کی ہے۔ قطر ایران کا اتحادی ملک تصور کیا جاتا ہے اور اس نے بھی فریقین سے سمجھداری سے کام لینے کا کہا ہے۔ سعودی عرب خطے میں ایران کا حریف ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے کہا ہے، ''ایسے تمام اعمال، جو صورتحال کو مزید خراب کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، ناقابل برداشت نتائج سامنے لائیں گے۔‘‘
ایران میں سعودی عرب پر حملے کی منصوبہ بندی کیسے ہوئی؟
وائٹ ہاؤس نے اپنے اس حملے کے دفاع میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ ''سلیمانی امریکی سفارت کاروں اور خطے میں امریکی اہلکاروں پر حملے کی عملی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔‘‘ امریکی صدر نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ''اسے کئی برس پہلے ہی راستے سے ہٹا دینا چاہیے تھا۔ لیکن ہم نے یہ اقدام گزشتہ شب ایک جنگ کو روکنے کے لیے اٹھایا ہے۔‘‘ امریکی صدر کو اسرائیلی حمایت بھی حاصل ہے۔
اس حملے کے فورا بعد ہی عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں، سرمایہ کاروں نے مشرق وسطیٰ کے استحکام سے متعلق چہ میگوئیاں شروع کر دیں، سوشل میڈیا پر خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں جبکہ ٹوئٹر پر 'تیسری عالمی جنگ‘ کا لفظ دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے لگا۔
فرانیسسی خارجہ امور کی نائب وزیر ایمیلی دے مونشالاں نے آر ٹی ایل ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''آج صبح ہم نے مزید خطرناک دنیا میں آنکھ کھولی ہے۔ فوجی تصادم ہمیشہ ہی خطرناک ہوتا ہے۔‘‘ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے جنرل سلیمانی کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے، ''یہ بین الاقوامی قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے اور اس کی مذمت کی جانا چاہئے۔‘‘
روسی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان ماریا زخاروف کا کہنا تھا کہ ایسا ٹرمپ کی انتخابی مہم کو تقویت دینے کے لیے کیا گیا ہے، ''امریکی فوج نے ایسا امریکی سیاستدانوں کے کہنے پر کیا ہے۔ ہر کسی کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ امریکی سیاستدانوں کے اپنے مفادات ہیں کیوں کہ یہ سال انتخابات کا سال ہے۔‘‘
شام کی وزارت خارجہ نے اس امریکی کارروائی کو 'غداری پر مبنی مجرمانہ جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کشیدگی پیدا کرتے ہوئے خطے کے ممالک کے مسائل کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح یمن میں ایرانی اتحادی حوثی باغیوں کے سربراہ عبدالمالک الحوثی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سلیمانی کا 'مقدس خون رائیگاں‘ نہیں جائے گا۔
افغان صدر اشرف غنی نے فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلیمانی کی ہلاکت سے خطے میں تشدد مزید پھیل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک ایران اور امریکا کے مابین میدان جنگ نہیں بننا چاہتا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اس امریکی کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ امریکا کے اتحادی ممالک برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا نےکہا ہے کہ بغداد میں ہونے والی کارروائی کی کچھ ذمہ داری ایران پر بھی عائد ہوتی ہے۔
برلن حکومت کی ترجمان الریکے ڈیمر نے یہ بھی کہا، ''ہم ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘ چین نے امریکا پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 'طاقت کا غلط استعمال نہ کرے۔‘‘ دریں اثناء ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے چین، روس اور قطر سمیت متعدد ممالک رہنماؤں سے ٹیلی فون پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ا ا / ع ب ( اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)