دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں طویل کرفیو
11 اگست 2010بھارتی زیر انتظام کشمیر کی اکثر سڑکوں اور گلیوں کے کونوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کوئی نئی بات تو نہیں ہے لیکن آجکل یہ اہلکار کرفیوکے نفاذ کو یقینی بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ وادی میں گزشتہ مہینوں کے دوران ہنگاموں، ریلیوں، پتھراؤ اور فائرنگ کے دوران ہلاک ہونے والے زیادہ تر نوجوان تھے۔ ہلاک ہونے والے ایک سترہ سالہ نوجوان محمد اقبال کی کزن معروفہ خان نے بتایا کہ اقبال گھر سے بسکٹ لینے کے لئے نکلا تھا کہ پولیس نے اسے گولی مار دی۔ گولی اس کے سر میں لگی اور چھ روز تک تکلیف میں رہنے کے بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گیا۔ اس واقعے کے بعد سری نگر اور دیگر علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور پولیس اور نئی دہلی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ اقبال کی آخری رسومات میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اس صورتحال میں انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوان اپنی آواز دہلی سرکار تک پہنچانے کے لئے احتجاج پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی نے کہا کہ "بیس سال قبل بھارتی حکومت کہتی تھی کہ یہ ایک مسلح جدوجہد ہے لیکن آج ان کے پاس یہ بہانہ بھی نہیں ہے۔"
کشمیر کا شمار دنیا کے ان خطوں میں ہوتا ہے، جہاں بہت زیادہ تعداد میں فوج تعینات ہے۔ یہاں فوج کے پاس خصوصی اختیارات ہیں۔ وہ بغیرکسی مقدمے کے کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے اورچھاپہ مارنے کے لئے انہیں وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ مرکزی حکومت نے کشمیر میں زیادہ تر وہ پولیس اہلکار تعینات کئے ہوئے ہیں، جو مقامی زبان نہیں بول سکتے۔ اسی وجہ سے کشمیری باشندوں اور ان کے درمیان کشیدگی برقرار رہتی ہے۔
سری نگر کی سڑکوں پر آج بھی پتھر پڑے ہوئے ہیں، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یہ گھمبیر خاموشی اکثر پولیس کی جانب سے فائر کی جانے گولی کی آوازسے ہی ٹوٹتی ہے۔ خان نامی ایک دُکاندار نے ایک چھ سالہ زخمی بچے کو دکھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری وادی کے جذبات یکساں ہیں اور سب بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ کشمیر کے بھارت نواز وزیراعلی عمرعبداللہ سے بھی لوگ اب نا امید ہو چکے ہیں۔ عمرعبداللہ 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں ساٹھ فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ 28 سالہ خان نے کہا کہ ہم نے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمرعبداللہ کو ووٹ دیئے تھے تاکہ صورتحال میں تبدیلی آئے، لیکن جب بھی ہم احتجاج بند کرتے ہیں بھارتی حکومت ہمیں فراموش کر دیتی ہے۔ خان کے بقول 2008ء میں ہم نے احتجاج روک دیا تھا جو ایک غلطی تھی لیکن اس مرتبہ آزادی تک یہ جاری رہے گا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں سے علیحدگی پسند متحرک ہیں اور اس دوران سکیورٹی اہلکاروں سمیت 47 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ احتجاج کی اس حالیہ لہرنے نئی دہلی کے ایوانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : افسر اعوان