دو ایرانی ایٹمی سائنسدانوں پر حملہ، ایک ہلاک
29 نومبر 2010ایرانی سرکاری خبررساں ایجسنی کے مطابق تہران کے دو مختلف مقامات پر یہ دھماکے پیر کو کئے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے سائنسدانوں کی چلتی ہوئی کاروں پربم چپکا دئے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی وژن نے اس حملے میں اپنے روایتی حریف اسرائیل کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے،’ دہشت گردی کے اس عمل میں صیہونی ریاست کے ایجنٹس نے یونیورسٹی کے دو معروف پروفیسروں پر حملہ کیا۔’ ایک حملے میں ڈاکٹرماجد شہر یاری ہلاک ہو گئے جبکہ ان کی اہلیہ زخمی ہوئی ہیں۔ دوسرے حملے میں ڈاکٹر فریدون عباسی اور ان کی اہلیہ زخمی ہوئیں۔
فارس نیوز ایجنسی نے بھی ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے تہران کے دو مختلف مقامات پر کئے گئے ہیں۔ سرکاری خبر رساں ادارے IRNA کے مطابق ہلاک ہونے والے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر شہر یاری تہران کی شھید بہشتی یونیورسٹی کے ایٹمی انجنیئرنگ شعبے سے وابستہ تھے جبکہ باون سالہ ڈاکٹرعباسی وزرات دفاع کے ایک ایٹمی تحقیقی سینٹر سے وابستہ ہیں۔ نیوکلئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کرنے والے فریدون عباسی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جوہری تحقیق کے ماہر ہیں اورسن 1979ء سے پاسداران انقلاب کے رکن ہیں۔
تہران کے گورنر سفرعلی نے کہا ہے کہ ان حملوں کی تحقیقات جاری ہیں اورجیسے ہی نتائج برآمد ہوں گے، انہیں عام کر دیا جائے گا،’ یہ حملے ذاتی نوعیت کے نہیں ہیں، میرے خیال میں یہ پہلے ہونے والے حملوں کے مقابلے میں مختلف ہیں تاہم ہم اس حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔‘
ایرانی جوہری پروگرام کے اعلیٰ مذاکرات کار علی اکبر صالحی نے ان حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’دشمن‘ اس طرح کے حملے کر کے آگ سے کھیلنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا،’ ہماری قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو دشمنوں کا انجام برا ہو گا۔‘
ایران کے ایٹمی سائنسدانوں پر حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ایک روز قبل ہی امریکہ کے اعلیٰ فوجی حکام نے کہا تھا کہ وہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو روکنے کے لئے عسکری کارروائی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ایرانی حکام ان حملوں کو اس لئے بھی اہمیت کا حامل تصور کررہے ہیں کیونکہ گزشتہ روز ہی وکی لیکس نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے خفیہ دستاویزات سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ سعودی بادشاہ امریکہ پر کئی مرتبہ دباؤ ڈال چکے ہیں کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لئے فوجی کارروائی کرے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصطفیٰ