دو لڑکیوں کی پراسرار ہلاکت کا معمہ ’حل ہو گیا‘
27 نومبر 2014وفاقی تفتیش کاروں کے مطابق ان لڑکیوں نے خود کشی کی تھی۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اس نئی پیش رفت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
رواں برس مئی میں ان کی لاشیں ریاست اترپردیش کے گاؤں میں ایک درخت سے جھولتی پائی گئی تھیں۔ دونوں لڑکیاں کزنز تھیں اور ان کی عمریں بارہ اور چودہ برس تھیں۔
اس واقعے کے ردِ عمل میں بین الاقوامی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد پر غم و غصہ ظاہر کیا گیا تھا۔ ان لڑکیوں کے ورثا کا کہنا تھا کہ انہیں اونچی ذات کے مردوں نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ وہ گھر میں ٹوائلٹ نہ ہونے کے باعث رات کے وقت کھیتوں میں رفع حاجت کے لیے گئی تھیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مہینوں تک جاری رہنے والی تفتیش کے بعد جمعرات کو سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے کہا ہے کہ یہ خود کشی کا معاملہ ہے۔
اس ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے: ’’چالیس سائنسی رپورٹوں کے مطابق، سی بی آئی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دو کم سن لڑکیوں کے ساتھ نہ تو جنسی زیادتی ہوئی اور نہ ہی انہیں قتل کیا گیا، جیسا کہ الزام (پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں) لگایا گیا تھا۔‘‘
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے قبل ازیں جمعرات کو ہی سی بی آئی کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا تھا کہ لڑکیوں کو ایک دیہاتی کے ساتھ دوستی کی بنا پر خاندان کے دباؤ کا سامنا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی جان لی۔
اے ایف پی کے مطابق اس کیس نے بھارت کی جانب سے خواتین کے ساتھ پیش آنے کے طریقہ کار پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ مئی میں یہ واقعہ پیش آنے پر پولیس نے پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ اس سے پہلے لڑکیوں کے ورثہ نے پولیس پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان کی نچلی ذات کے باعث ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی۔ بعدازاں ان پانچوں افراد کو بغیر کوئی فردِ جرم عائد کیے رہا کر دیا گیا تھا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اس کیس میں سامنے آنے والی تازہ پیش رفت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سی بی آئی سے تفتیش دوبارہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دہلی کمیشن فار وِمن کی سربراہ برکھا شکلا نے جمعرات کو صحافیوں سےباتیں کرتے ہوئے کہا: ’’اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کیا جانا چاہیے، جلد بازی میں فیصلے نہیں کیے جانے چاہییں۔ سی بی آئی کو رپورٹ کو ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے اور ذمہ داروں کو سزا دی جانی چاہیے۔‘‘