دو کم عمر بہنیں ’ختنے‘ کے دوران ہلاک
16 ستمبر 2018صومالیہ میں نسوانی ختنوں کے خلاف مہم چلانے والی ایک مقامی این جی او کی سربراہ حوا عدن کے مطابق دس سالہ آسیہ عابدی وار سیم اور گیاری سالہ خدیجہ، پُنٹ لینڈ ریاست کے ایک گاؤں میں جسم کے نازک اعضا کو کاٹنے کے عمل کے دوران خون نہ رکنے کے سبب ہلاک ہو گئیں ہیں۔
حوا عدن نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا،’’ صومالیہ میں نسوانی ختنے کا آپریشن نہ صرف بچیوں کی صحت کے لیے ضرر رساں ہوتا ہے بلکہ بعض لڑکیاں خون ضائع ہونے کے سبب موت کے منہ میں بھی اتر جاتی ہیں۔‘‘
بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ صومالیہ میں نسوانی ختنے یا ’فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن‘ کی روایت بہت عام ہے۔ مسلمان اکثریت والے ملک صومالیہ میں اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔
اس عمل کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی گردانا جاتا ہے۔
خواتین یا لڑکیوں کے جنسی اعضاء کو ایسے بہیمانہ طریقے سے کاٹ دینے کی فرسودہ روایت زیادہ تر افریقی ممالک میں اب بھی رائج ہے۔ اقوام متحدہ نے اس عمل کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر موجودہ روایات برقرار رہیں تو آئندہ پندرہ برسوں کے دوران نسوانی ختنوں کا شکار بننے والی خواتین کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گی۔
صومالیہ جیسے قدامت پرست ملک میں اگر کسی لڑکی کا ختنہ نہ کیا گیا ہو تو اسے شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یونیسیف کے مطابق اب تک دو سو ملین خواتین اور لڑکیاں اس فرسودہ روایت کا شکار ہو چکی ہیں۔
ص ح / ا ا/ نیوز ایجنسی