1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دو کم عمر بہنیں ’ختنے‘ کے دوران ہلاک

16 ستمبر 2018

صومالیہ میں خواتین کے حقوق کی مہم چلانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بتایا ہے کہ دو بچیاں نسوانی ختنے کے آپریشن میں خون ضائع ہونے کے سبب ہلاک ہو گئی ہیں۔ یہ رسم براعظم افریقہ کے کئی ممالک میں رائج ہے۔

https://p.dw.com/p/34xee
Kenia Mann trägt T-Shirt gegen Weibliche Genitalverstümmelung - Female Genital Mutilation FGM
تصویر: Reuters/S. Modola

صومالیہ میں نسوانی ختنوں کے خلاف مہم چلانے والی ایک مقامی این جی او کی سربراہ حوا عدن کے مطابق دس سالہ آسیہ عابدی وار سیم اور گیاری سالہ خدیجہ، پُنٹ لینڈ ریاست کے ایک گاؤں میں جسم کے نازک اعضا کو کاٹنے کے عمل کے دوران خون نہ رکنے کے سبب ہلاک ہو گئیں ہیں۔

حوا عدن نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا،’’ صومالیہ میں نسوانی ختنے کا آپریشن نہ صرف بچیوں کی صحت کے لیے ضرر رساں ہوتا ہے بلکہ بعض لڑکیاں خون ضائع ہونے کے سبب موت کے منہ میں بھی اتر جاتی ہیں۔‘‘

بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ صومالیہ میں نسوانی ختنے یا ’فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن‘ کی روایت بہت عام ہے۔ مسلمان اکثریت والے ملک صومالیہ میں اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔

Bildergalerie Afrika Genitalverstümmelung
تصویر: Reuters/S. Modola

اس عمل کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی گردانا جاتا ہے۔

خواتین یا لڑکیوں کے جنسی اعضاء کو ایسے بہیمانہ طریقے سے کاٹ دینے کی فرسودہ روایت زیادہ تر افریقی ممالک میں اب بھی رائج ہے۔ اقوام متحدہ نے اس عمل کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر موجودہ روایات برقرار رہیں تو آئندہ پندرہ برسوں کے دوران نسوانی ختنوں کا شکار بننے والی خواتین کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گی۔

صومالیہ جیسے قدامت پرست ملک میں اگر کسی لڑکی کا ختنہ نہ کیا گیا ہو تو  اسے شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یونیسیف کے مطابق اب تک دو سو ملین خواتین اور لڑکیاں اس فرسودہ روایت کا شکار ہو چکی ہیں۔

ص ح / ا ا/ نیوز ایجنسی