دور کی کہکشاں پر آکسیجن مل گئی
17 مئی 2018ماہرین فلکیات کے مطابق کائناتی اعتبار سے ڈیڑھ سو ملین برس کا عرصہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس لیے اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے یہ جاننے میں مدد دے سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کے باعث بننے والے عظیم دھماکے کے بعد اس کائنات کی ماہیت کیا تھی۔
اربوں برس قبل کی کائنات کا نقشہ
اختتام کائنات کا امکان، بحث پھر شروع
لارج ہاڈرون کولائیڈر: ہلکےبگ بینگ کا کامیاب تجربہ
بدھ سولہ مئی کے روز شائع ہونے والی اس تحقیقی رپورٹ میں اب تک مشاہدہ کی جانے والی اس سب سے بعید کہکشاں کی تخلیق اور ترتیب سے متعلق مفصل تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ اس کہکشاں کو ایم اے سی ایس 1149 جے ڈی وی کا نام دیا گیا ہے اور یہ 13.8 ارب سال پہلے ہونے والے بِگ بینگ کے ساڑھے پانچ سو ملین سال بعد مکمل طور پر موجود تھی۔
محققین کے مطابق اس کہکشاں سے چلنے والی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 13.28 ارب نوری سال لگے، جب کہ سائنس دان اس روشنی کے ذریعے اس کہکشاں کو دیکھنے کو ’ماضیِ انتہائی بعید‘ میں جھانکنے سے تعبیر بھی کرتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ نوری سال کا مطلب روشنی کی رفتار سے (جسے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات کی مطلق اور حد رفتار قرار دیا جاتا ہے) ایک برس میں طے کیا جانے والا فاصلہ ہوتا ہے، جو 9.5 ٹریلین کلومیٹر بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس رفتار سے چلنے والی روشنی تیرہ ارب سال سے زائد عرصے بعد زمین تک پہنچی۔
سائنس دانوں کے مطابق اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملنے سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بعد یہاں آکسیجن، کاربن اور نائٹروجن ہی سب سے پہلے بننے والے عناصر تھے اور ابتدائی ستاروں پر یہی عناصر موجود ہوتے تھے، تاہم بعد میں ان ابتدائی اور بڑے ستاروں کے پھٹنے (سپرنووا) کے بعد نئے اور بھاری عناصر تخلیق ہوئے۔
محققین کے مطابق آکسیجن کی موجودگی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس کہکشاں میں ابتدائی طرز کے ستارے بِگ بینگ کے فقط ڈھائی سو ملین سال بعد بننے اور فنا ہونے کے عمل سے گزرے، جب کہ اس وقت یہ کائنات، آج کی کائنات کی عمر کے فقط دو فیصد کے برابر تھی۔
یونیورسٹی آف جاپان سے وابستہ خلانورد تاکویا ہاشیموتو کے مطابق، ’’اس مطالعے سے قبل ہمارے پاس ابتدائی طرز کے ستاروں کی تخلیق سے متعلق فقط نظریاتی پیش گوئیاں ہی تھیں۔ مگر اب ہم اس کائنات میں ابتدائی دور کے ستاروں کی تخلیق کا براہ راست مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘
اس مطالعے کو بِگ بینگ کے بعد ستاروں اور کہکشاؤں کی تخلیق اور آغاز سے متعلق شواہد کی راہ میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ سائنس دان عظیم دھماکے کے بعد کے اس ابتدائی دور کو ’کاسمک ڈان‘ یا ’کائناتی صبح‘ قرار دیتے ہیں۔
ع ت / م م